حکومتی اقدامات
کچھ وزراء نے ٹیلیویژن پر آ کر حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے انتہاپسندی کے خلاف سخت کارروائی کاعندیہ بھی دیا۔
موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے یہ پتا نہیں چل رہا کہ ملک کے کئی حساس معاملات میں اُس کی پالیسی کیا ہے، وہ کبھی شدت پسندی کے خلاف بڑے بڑے بیانات دیتی ہے تو کبھی اُس کے آگے سرینڈر کر جاتی ہے۔
ابھی حال ہی میں ہم سب نے دیکھا کہ ایک جماعت ٹی ایل پی نے لاہور شہر سے مارچ شروع کیا جو وزیر آباد پر جا کر ایک دھرنے کی شکل اختیار کر گیا ، جہاں پولیس سے اس کی مڈ بھیڑ ہوگئی اور بات حکومتی رٹ کے قائم ہونے تک پہنچ گئی۔ ٹی ایل پی کا یہ دھرنا کوئی پہلا نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ کوئی پانچ مرتبہ ملک کے مختلف شہروں میں دھرنے دے چکی تھی۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی یہ اس کا شاید تیسرا دھرنا تھا۔ اس پہلے جب 2018 ء میں ٹی ایل پی نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا لیکن حکومت نے اس وقت بھی ایک سخت مؤقف اختیار کیا اور دھرنے والوں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ وزیراعظم نے الیکٹرانک میڈیا پر آکر قوم سے اپنے خطاب میں یہ واضح کیا کہ وہ کسی طور انتہا پسندی کی اجازت نہیں دیں گے اور ایسے ہنگاموں سے نہیں ڈریں گے۔ اس بار بھی ابتدا میں حکومت کا یہی مؤقف رہا اور کابینہ میں دھرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے پر غور بھی کیا گیا۔
کچھ وزراء نے ٹیلیویژن پر آ کر حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے انتہاپسندی کے خلاف سخت کارروائی کاعندیہ بھی دیا، لیکن دو چار دنوں بعد ہی سارامنظر نامہ بدل گیا اور جس پارٹی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملک دشمن قرار دیا گیا تھا اُس کے سارے مطالبات مانتے ہوئے پھر سے قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں کی جانے لگیں ، جو وزیراعظم کوئٹہ میں ہزارہ والوں کے شہدا کے لواحقین سے اس وقت تک ملنے کو تیار نہ تھے جب تک وہ لاشیں سڑکوں سے ہٹا نہیں لیتے۔
ہمیں اپنی حکومت کے کئی فیصلوں میں اس کی نیتوں کا پتا نہیں چل پا رہاہے ، وہ اپنے بیانوں کی حد تک تو پر خلوص دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے عملی اقدام اس کے دعوؤں سے میل نہیں کھاتے۔ ریاست مدینہ کے قیام کی باتیں بھی صرف زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہورہی ہیں۔ عملاً اس ضمن میں کوئی قدم بھی آگے نہیں بڑھایا گیا ہے۔ تین سال ہوچکے لیکن ریاست مدینہ کی ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ منصوبہ بھی پی ٹی آئی کے اگلے پانچ سالہ منصوبوں میں شامل کردیا گیا ہے، جو لنگر خانے اور شیلٹر ہومز ریاست مدینہ کی مثال دیکر بنائے گئے ہیں اُن کا بھانڈا بھی سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے امیر بشیر فاروقی صاحب نے سرعام پھوڑ دیا ہے۔ حکمران جو اِن لنگر خانوں کا کریڈٹ اپنے نام کرتے دکھائی دیتے تھے آج مولانا بشیر فاروقی کے اس بیان کے بعد مکمل خاموش اور چپ ہیں۔
اب بات کرتے ہیں حفیظ شیخ سے متعلق جنھیں ہماری حکومت بڑے چاؤ کے ساتھ لائی تھی اور انھیں ایک کامیاب مشیرخزانہ کے طور پر پیش کرتی بھی رہی۔ انھیں سینیٹ کی سیٹ دلانے کے لیے بظاہر تن من دھن کی بازی بھی لگائی گئی لیکن اُن کے ہار جانے کے بعد اُن سے نظریں چرا لی گئیں ۔ ہماری یہ حکومت جو پارلیمنٹ میں اکثریت کی بناء پر اپوزیشن سے اب تک کسی معاملہ میں شکست سے دوچار نہیں ہوئی بلکہ سینیٹ میں واضح برتری رکھنے والی اپوزیشن کئی موقعوں پر حکومت کے ہاتھوں خود شکست سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ پھر نجانے کیوں وہ حفیظ شیخ کے سینٹر بنائے جانے میں یوں ناکام ہوگئی ۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود حفیظ شیخ سے جان چھڑانا چاہتی تھی ، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ یوں اُن کا الیکشن ہار جاتی۔ یہاں بھی ہمیں حکومت کی نیتوں کا فتور ہی دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بھی صرف بیانوں تک ہی محدود رکھنا چاہتی ہے ، ورنہ خود اُسے بھی معلوم ہے کہ اس مشین کے ذریعے الیکشن کروانا اُس کے بس کی بات نہیں ہے۔
نئے انتخابات میں صرف 20 ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے اور مشین کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں کی گئی ہے۔ ان مشینوں کی درآمد کس طرح کی جائے گی یا یہ اپنے یہاں ہی تیار ہونگیں ،کسی کو نہیں معلوم۔ اس پر لاگت کتنی آئے گی یہ بھی طے نہیں ہوا ہے۔ اپوزیشن اور ماہرین بتا رہے ہیں کہ تقریباً دو لاکھ مشینیں درکار ہونگی اور اس پرلاگت 1.5 ارب ڈالر آئے گی۔ یہ ڈیڑھ ارب ڈالرکہاں سے آئیںگے یہ بھی کسی کو پتا نہیں۔
حکومت چاہتی ہے کہ اپوزیشن مسلسل انکار کرتی رہے اور اگر وہ سپریم کورٹ جاتی ہے اور وہاں سے اِن مشینوں کے استعمال کو مسترد کر دیا جاتا ہے تو سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کی مانند صاف شفاف الیکشن نہ کروانے کا سارا الزام اپوزیشن کے سر تھوپ دے گی ، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کی طرز پر دھاندلی اور ووٹ چوری کی ایسی وارداتیں کی جائیں گی کہ سارا الیکشن پروسس ہی متنازع ہوجائے۔
حکومت اگر اس کام میں مخلص ہوتی تو سب کو اعتماد میں لے کر ایک غیر متنازع طریقہ انتخاب اور اصلاحات ترتیب دیتی مگر اُس نے ایک متصادم طریقہ انتخاب کو اپنے لیے بہتر جانا۔