سیاسی کھیل
مہنگائی و بے روزگاری سے تنگ عوام (ن) لیگ کی اس سیاست پر حیران اور پی ڈی ایم کچھ نہ کرسکنے پر پریشان رہی۔
پنجاب اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل اور اپنی حکومت بنانے میں دلچسپی نہ رکھنے والی مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا وقت ابھی نہیں ہے اور سیاست میں کوئی بات انہونی نہیں ہوتی، پیپلز پارٹی سے ملاپ ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں عدم اعتماد پی ڈی ایم سے مشاورت کے بعد لے کر آئیں گے۔
جے یو آئی کے مرکزی رہنما مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کو گھر بھیج چکے ہوتے مگر پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے بلوچستان میں گرتی دیوار کو دھکا دیا اور جام کمال حکومت کو ہٹا کر انتقام لیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ 2018 میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں اور تحریک انصاف والے ہر حالت میں وہاں اپنی حکومت بنانا چاہتے تھے۔ مسلم لیگ (ق) نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا اور پنجاب میں پی ٹی آئی نے اپنا وزیر اعلیٰ اور (ق) لیگ نے اپنا تجربہ کار اسپیکر منتخب کرا لیا تھا۔ (ق) لیگ نے دو وفاقی اور دو پنجاب کی وزارتوں کے علاوہ قومی اسمبلی میں صرف پانچ اور پنجاب اسمبلی کی صرف 10 نشستوں کے ذریعے اپنا ایک سینیٹر بھی مارچ میں منتخب کرا لیا تھا۔
موجودہ حکومت کی دو سالہ من مانی کے بعد گزشتہ سال اپوزیشن کی جماعتوں نے جماعت اسلامی کے بغیر اپنا حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم قائم کیا تھا جو بمشکل چھ ماہ قائم رہا ، مگر پی ڈی ایم اس دوران بڑے بڑے جلسے اور عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب رہی اور عوام کو محسوس ہوا تھا کہ حکومت کے سامنے کوئی ان کے لیے آواز اٹھانے والی اپوزیشن موجود ہے۔
حکومت نے پی ڈی ایم کو اہمیت نہیں دی اور ان کے کامیاب جلسوں کو ناکام تو قرار دیتی رہی مگر وہ پی ڈی ایم سے خوفزدہ ضرور تھی۔ پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ کے جلسے میں میاں نواز شریف نے موجودہ حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقید کی جس پر حکومت کی لاٹری نکل آئی اور ایک پیج پر ہونے کی دعویدار حکومت نے اپوزیشن پر ریاستی اداروں کی مخالفت کا الزام لگانا شروع کردیا حالانکہ وہ تنقید ادارے پر نہیں تھی۔
اس تنقید کا حکومت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف انتقامی کارروائی بڑھادی تھی مگر (ن) لیگ اپنے قائد کا بیانیہ برقرار نہ رکھ سکی اور شہباز شریف نیاس موقف کے برخلاف مفاہمت کی باتیں شروع کردیں جب کہ مریم نواز نے اپنے والد کے بیانیہ کا بھرپور دفاع کیا اور اسے آگے بڑھایا جس سے (ن) لیگ میں اختلافات بڑھے کیونکہ (ن) لیگی رہنما بالاتروں کی مخالفت کے عادی نہیں تھے اور مزاحمت چاہتے تھے نہ اہم ادارے کی ناراضگی کے متحمل ہو سکتے تھے۔
مسلم (ن) لیگ کی اس حالت سے حکومت کو فائدہ ہوا جب کہ پیپلز پارٹی ڈبل گیم کھیلتی رہی کیونکہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر اپنی سندھ حکومت گنوانا نہیں چاہتی تھی ، اس لیے پی ڈی ایم کو چھوڑ گئی جس سے حکومت مضبوط ہوئی مگر حکومت نے (ن) لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی کے خلاف اپنی مہم جاری رکھی اور (ن) لیگ کے مزاحمت والے حکومت کو آر پار نہ کرسکے۔
ملک میں نواز شریف کی بڑھتی مقبولیت سے حکومت اور اس کو لانے والے (ن) لیگ کو توڑنے میں ناکام رہے مگر (ن) لیگ کی دہری پالیسی عوام میں پسند نہیں کی گئی اور مسلم لیگ (ن) حکومت کی طرف سے مسلسل مہنگائی بڑھانے پر صرف تنقید کرتی رہی اور حکومت کو کوئی ٹف ٹائم نہ دے سکی اور شہباز شریف رہائی کے باوجود عوام کو سڑکوں پر نہ لا سکے اور یہ انتظار کرتے رہے کہ حکومت عوام میں نامقبول ہوکرخود گرے گی۔
(ن) لیگ نے پی ڈی ایم کی خواہش کے باوجود حکومت کو ہٹانے میں کوئی دلچسپی لی نہ پی پی کے تعاون کے باوجود پنجاب میں تحریک عوام لانے پر رضامند ہوئی اور حکومت سوا تین سال گزار گئی اور مسلسل مہنگائی بڑھاتی رہی اور پٹرول اور ڈالر بڑھتا اور روپیہ کم ہوتا گیا۔ (ن)لیگ کو حکومت کی گرتی نامقبولیت سے دلچسپی تھی مگر مہنگائی اور بے روزگاری میں جکڑے عوام کی فکر نہ تھی اور مریم نواز نے بھی کہہ دیا تھا کہ ہمیں حکومت کے مدت پوری کرنے پر اعتراض نہیں۔
مہنگائی و بے روزگاری سے تنگ عوام (ن) لیگ کی اس سیاست پر حیران اور پی ڈی ایم کچھ نہ کرسکنے پر پریشان رہی اور اس نے صرف اکتوبر میں مہنگائی کے خلاف دو ہفتے احتجاج کیا اور مسلم لیگ (ن) اب بھی سوچ رہی ہے کہ حکومت کی مقبولیت مزید کم ہو اور بے شک عوام کا حکومت کے ہاتھوں جینا اجیرن ہوتے دیکھتی رہے اور حکومت کی تبدیلی کا آئینی آپشن بھی استعمال نہ کرے خواہ ملکی معیشت مزید تباہ اور عوام جینے کے قابل ہی نہ رہیں اور حکومت اپنی مدت مکمل کرلے۔ یہ پالیسی (ن) لیگ کی سیاسی چال ہے مگر عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔