ہمیں لایا گیا ہے
پی پی کے کئی رہنماٹی وی شوزمیں یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا مسلم لیگ ق اورحکومت کے دیگراتحادیوں سے رابطہ ہے۔
حکومت جو ہدف سینیٹ میں نہ حاصل کر سکی ، وہ ہدف اکثریت کی بنیاد پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے حاصل کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں حکمراں اتحاد کے 221 اراکین نے بغیر کسی بحث و مباحثہ کے چند گھنٹوں میں 33 بلوں کو قانون کی شکل دیدی۔ ان بلوں میں بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق حاصل ہوا اور آیندہ انتخابات الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے کرانے کا فیصلہ ہوا۔
ملک میں منتخب اداروں کے ذریعے بہت سے جمہوریت مخالف قانون منظور ہوئے ہیں مگر اس فہرست میں ایک اور اضافہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اس موقع پر ایک تاریخی جملہ کہا کہ ''یہ جو اگا رہے ہیں اس کا فائدہ کسی اورکو ہوگا۔''
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت نے اقلیتی اراکین کی مخالفت کے باوجود قرارداد مقاصد کا قانون منظور کرایا تھا جس سے غیر مسلم پاکستانی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوگئے تھے۔ مشرقی پاکستان کی عددی برتری کو ختم کرنے کے لیے برابری کے اصول کا قانون منظور ہوا۔
1955میں سندھ، خیبرپختون خوا، پنجاب اور موجودہ بلوچستان کو ضم کر کے ون یونٹ بنانے کے لیے، سندھ اور صوبہ سرحد کی اسمبلیوں سے ایسے ہی حربے استعمال کرکے ون یونٹ کا قانون منظور ہوا۔ سینئر صحافی سہیل سانگی نے لکھا ہے کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر بندے علی تالپورکو اغواء کرکے تھرپارکر لے جایا گیا۔ ون یونٹ بنا کر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا اور سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحد میں احساس محرومی پیدا ہوا تھا۔ اس قانون کی بناء پر سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں کے افراد کے درمیان تنازعات نے جنم لیا۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کے لیے غیر آئینی راستہ اختیار کرنے کو قانونی دائرہ میں لانے کے لیے قومی اسمبلی سے منظوری لی گئی۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین کے نفاذ کے فورا بعد اس آئین میں دیے گئے انسانی حقوق کے باب کو معطل کرنے کے لیے اسمبلی کی مدد لی اور مخصوص گروہوں کے دباؤ پر آئین کے آرٹیکل 2 میں ترمیم کر کے ریاست نے ایک مذہبی گروہ کو اسلام سے خارج کرنے کا فیصلہ کرایا۔
جنرل ضیاء الحق نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی قومی اسمبلی سے اقتدار پر غیرقانونی قبضہ کو آئینی شکل دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 8 میں ترمیم منظور کرائی اور اس آرٹیکل کے تحت منتخب اداروں کو توڑنے اور منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل کیا گیا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے شریعت بل منظور کرانے کی کوشش کی ، اگر یہ بل منظور ہو جاتا تو میاں صاحب ایک مطلق العنان آمر بن جاتے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے غیرقانونی اقتدار کو آئینی شکل دینے کے لیے 2002 میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی سے پی سی او کا قانون اسی طرح منظور کرایا تھا جس طرح وزیر اعظم عمران خان نے انتخابی اصلاحات کا قانون منظور کرا لیا ۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے یہ کہہ کر کئی حقیقتوں کو آشکارکیا کہ ''ہم آئے نہیں ہیں ہم لائے گئے ہیں'' انتخابات میں شفافیت تلاش کرنے والے ماہرین اس حقیقت پر متفق ہیں کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال سے انتخابی عملہ پر اعتماد بحال نہیں ہوگا۔
ایک رپورٹ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 8 ماہ پہلے ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی تھی۔ کمیشن نے اس حوالہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو خطوط بھیجے تھے۔ اس رپورٹ میں تحریرکیا گیا ہے کہ ایک مشین کا خرچہ 2لاکھ روپے ہے۔ اس مشین کے استعمال کے لیے 2 سے 3لاکھ آئی ٹی ماہرین کی ضرورت پڑے گی۔
الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کو فضول قرار دیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023کے انتخابات کے لیے 8 لاکھ مشینیں منگوانی پڑیں گی۔ الیکشن کمیشن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مشین کی چپ لاپتہ ہونے کا مطلب نتائج میں تبدیلی ہوگا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مشین کی حفاظت اور اس کو پولنگ اسٹیشن پہنچانے اور واپسی ایک حساس مسئلہ بن جائے گا۔ مشین پر غلط ووٹ کاسٹ ہونے کی صورت میں ووٹر دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکے گا اور یہ ووٹ ضایع ہو جائے گا۔
اسی طرح اس مشین کے استعمال کے لیے ہزاروں افراد کی تربیت لازمی ہوگی۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق اگلے انتخابات میں ایک لاکھ پولنگ اسٹیشن قائم کرنے ہونگے اور ہر پولنگ اسٹیشن پر آئی ٹی کے 2 سے 3 ماہرین کا تقرر ضروری ہوگا، گزشتہ انتخابات میں پولنگ بوتھ کی تعداد 2لاکھ 40 ہزار تھی۔ اب یہ تعداد 3لاکھ ہونے کا امکان ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر قوم اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے انتخاب کے لیے علیحدہ علیحدہ مشینیں رکھنا ضروری ہوںگی۔
الیکشن کمیشن کے ماہرین نے تحقیق کے بعد اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر کسی حلقہ میں 20 سے زائد امیدوار ہوں گے تو ایک اور مشین کی ضرورت ہوگی۔ یہ مشین 20کے قریب امیدواروں کو دیے گئے ووٹوں کا حساب رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہر حلقہ میں عمومی طور پر 20سے زائد امیدوار ہوتے ہیں۔ مشین کے اچانک خراب ہونے کا اندیشہ کے پیش نظر متبادل کے طور پر مشین کی فراہمی ضروری ہوگی۔ اس بناء پر اس متبادل انتظام کے لیے 8 لاکھ مشینوں کی ضرور ت ہوگی۔ ڈیٹا سینٹر کے قیام اور ان مشینوں کو محفوظ طور پر رکھنے کے لیے ڈیٹا سینٹر قائم ہوںگے۔ یہ بھی اربوں روپے کا سودا ہوگا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ 2023 کے انتخابات میں تو یہ مشین استعمال ہوجائے گی یا ٹیکنالوجی تبدیل ہونے کی بناء پر ان مشینوں کو کباڑیے کے حوالہ کیا جائے گا، مگر الم ناک صورتحال یہ ہے کہ حکومت وقت نے اتنی اہم رپورٹ پارلیمنٹ کے اجلا س میں پیش ہی نہیں کی۔ اوورسیز پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ دینے کا فیصلہ شفاف انتخابات کے اصولوں کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔
خلیجی ممالک میں جہاں پاکستانی کفیل کے محتاج ہوتے ہیں ان کی آزاد رائے آنا بہت مشکل ہے۔ بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے وہاں بھی غیر ممالک میں مقیم اپنے شہریوں کو ڈاک کے ذریعہ ووٹ دینے کا حق دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س میں اسپیکر نے پہلے یہ اعلان کیا کہ حزب اختلاف اس مسئلہ پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ اس بناء پر الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے قانون کا مسودہ پر غور نہیں ہوگا، پھر نہ جانے کہاں سے اشارہ آیا کہ حکومت نے رائے شماری کا فیصلہ کیا۔
اس مسئلہ پر حکومتی اتحادیوں کی واپسی کا کسی سے اشارہ ملا اور اکثریت کی بنیاد پر رائے شمار ی میں فتح حاصل ہوئی۔ اس فیصلہ کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری مسلسل پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے بیانات دیتے رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے کئی رہنما ٹی وی شوز میں یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ ق اور حکومت کے دیگر اتحادیوں سے رابطہ ہے۔ مسلم لیگ ق کے رہنما اور وفاقی حکومت کے وزیر چوہدری مونس الٰہی کی سابق صدر آصف زرداری سے ملاقاتوں کو بھی اس ضمن میں متوقع تحریک عدم اعتماد سے منسلک کرتے رہے ہیں مگر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس دفعہ دوسرا منظر دیکھنے کو ملا۔
مسلم لیگ ق نے تو حکومت کی حکمت عملی کے تحت انھیں ووٹ دیا مگر سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کے قائد حزب اختلاف کے انتخاب کی حمایت کرنے والے چھ سینیٹروں نے جن کا تعلق باپ سے بتایا جاتا ہے دوبارہ حکومت سے ملاپ کیا۔ الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمیشن 2023 کے انتخابات اس مشین کے ذریعہ کرانے کے لیے ابھی تیار نہیں۔ وزیر قانون کا کہنا ہے کہ کمیشن پارلیمنٹ کے قانون پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
اب یا تو حکومت کو چیف الیکشن کمشنر اورکمیشن کے دیگر اراکین کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس داخل کرنا ہوگا یا چیف الیکشن کمشنر اور ان کے ساتھی رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوجائیں گے۔ دونوں صورتوں میں قائد حزب اختلاف اور وزیر اعظم کی مشاورت سے نئے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کا تقرر ہوسکتا ہے۔ اس صورتحال میں یہ ممکن ہی نہیں ہوگا اور پھر ایک نیا بحران پیدا ہوگا۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ 2023 کے انتخابات ابھی سے مشکوک ہوگئے ہیں۔