آئی ایم ایف سے معاہدہ زہر قاتل سے کم نہیں
حکومت نے مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے۔
WASHINGTON:
حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان قرض کی بحالی کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ اس نئے معاہدہ سے اب پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر مل جائیں گے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اس خبر کو خوشخبری سمجھوں یا اس پر پاکستان کی عوام سے افسوس کروں۔ ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت کو اپنی تمام شرائط ماننے پر مجبور کر لیا ہے۔
حکومت نے مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے۔ کل تک شوکت ترین کہہ رہے تھے کہ اب ہم آئی ایم ایف سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لیں، اب تمام ڈکٹیشن قبول کر لی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کی کوئی بات نہیں مانی ہے۔
اس معاہدے سے پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا، بجلی مہنگی ہوگی، پٹرول مہنگا ہوگا، روپے کی قدر میں مزیدکمی ہوگی، اس سب کے نتیجے میں سب کچھ مہنگا ہوگا۔ یہ معاہدہ عمران خان کی سیاست کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہوگا۔ وہ پہلے ہی بہت تیزی سے غیر مقبول ہو رہے ہیں اور یہ معاہدہ انھیں مزید غیر مقبول کرے گا۔
لوگ مہنگائی سے پہلے ہی تنگ ہیں، مزید مہنگائی ان کے لیے زندگی مزید تنگ کر دے گی۔ غریب مزید غریب ہو جائے گا۔ مڈل کلاس تباہ ہو جائے گی، اس لیے یہ معاہدہ عمران خان کی سیاست اور حکومت کے لیے کوئی خوش آیند نہیں ہے بلکہ زہر کا پیالہ ہے۔
عمران خان کو یہ احسا س ہونا چاہیے کہ اب ان کے پاس مزید وقت نہیں ہے۔ وہ اب یہ کہہ کر بھی عوام کو دلاسہ نہیں دے سکتے کہ وہ گزشتہ حکومتوں کا گند صاف کر رہے ہیں۔ تین سال تک انھوں نے یہ چورن
خوب بیچا ہے، لیکن لوگ اب یہ چورن کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آج جو کچھ ہورہا ہے، یہ سب ان کی اپنی کارکردگی ہے۔ اسی طرح لوگ یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ دنیا میں مہنگائی ہو رہی ہے، اس
لیے پاکستان میں بھی مہنگائی ہو رہی ہے۔ یہ دلیل اور فلسفہ بھی لوگ نہیں مان رہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ اگر وہاں چیزیں مہنگی ہیں تو وہاں آمدن بھی زیادہ ہے، اس لیے یہ تقابلی جائزہ درست نہیں ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی بجٹ کے موقعے پر عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اب بجلی مزید مہنگی نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے عوام کو بتایا تھا کہ انھوں نے اور ان کی حکومت نے آئی ایم ایف کوبتا دیا ہے کہ عوام
اب مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے ہم بجلی مزید مہنگی نہیں کریں گے تا ہم وزیر اعظم کا یہ وعدہ بھی بس وعدہ ہی رہا۔ حکومت نے پھر بجلی مہنگی کرنے کی شرط تسلیم کر لی ہے، اس لیے اس معاہدہ سے ایک بار پھر عوام اور حکومت کے درمیان رشتہ کمزور ہوا ہے۔ عمران خان کے بارے میں ایک کمزور حکمران کا تاثر مضبوط ہوا ہے۔ لوگ ناامید ہوئے ہیں، عوام کو آنے والے دن مشکل نظر آرہے ہیں۔
پٹرول پر ٹیکس میں مسلسل اضافہ بھی کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ ماضی میں جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر بہت تنقید کرتے تھے۔ آج جب وہ خود پٹرول مہنگا کرنے کی شرائط مان رہے ہیں تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ پٹرول اور بجلی ہر آدمی کی ضرورت ہیں۔ جب دونوں کو اکٹھے مہنگا کریں گے تو مہنگائی کا طوفان آئے گا جو عوام کے لیے قابل برداشت نہیں ہوگا۔
اسٹیٹ بینک کی خو د مختاری بھی ایک حساس معاملہ ہے۔ یہ کیا منطق ہے کہ پاکستان کے اسٹیٹ بینک پر پاکستان کو کنٹرول ہی نہیں ہوگا۔ یہ ریاست کے اندر ریاست بنانے والی بات ہو گی۔ یہ کیا منطق ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر پر پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں ہو گا۔ کیا یہ پاکستان کی خودمختاری کا سودا نہیں ہے۔
پہلے ہم نے آئی ایم ایف کے کہنے پر اسٹیٹ بینک کا گورنر لگایا ہوا ہے اور اب اسٹیٹ بینک پر اپنا کنٹرول بھی ختم کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اس طرح تو اسٹیٹ بینک براہ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں چلا گیا۔ پاکستان کی دولت پر پاکستان کا کنٹرول ختم ہو گیا۔ کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ ہم نے اپنی مالی خود مختاری گروی رکھ دی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے گورنر روپے کی قدر میں کمی کے حق میں جس طرح کے دلائل دے رہے ہیں، وہ بھی صاف ظاہر کرتا ہے کہ انھیں پاکستان کے معروضی حالات کا کچھ علم نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی معیشت کو آئی
ایم ایف کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا پاکستان کے عام آدمی کے ساتھ کوئی تعلق نظر نہیں آرہا۔ دوسری طرف یہ بھی نظر آرہا ہے کہ آئی ایم ایف بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انھیں بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے عہدہ سنبھالنے کے بعد جس طرح شرح سود میں اضافہ کیا تھا وہ بھی پاکستان کی معیشت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا تھا۔ اب دوبارہ اسی طرح شرح سود میں اضافہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم نے ماضی کے تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ ہم د وبارہ اسی کنویں میں چھلانگ رہے ہیں جہاں سے ہم بڑی مشکل سے نکلے تھے۔
اسی طرح ٹیکسز بڑھانے کے تو خود عمران خان خلاف تھے۔ ٹیکس بڑھانے سے ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوتی۔ ٹیکس بڑھانے سے آئی ایم ایف کے اہداف تو وقتی طور پر حاصل ہو سکتے ہیں لیکن معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ ملک کی معیشت بیمار ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس دینے والے لوگوں کی تعداد پہلے ہی بہت کم ہے۔ ان پر ہی مزید بوجھ ڈالنا کونسی عقلمندی ہے۔ یہ آئی ایم ایف کی ضرورت تو ہو سکتی ہے پاکستان کی نہیں۔
ترقیاتی بجٹ میں کمی بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ عمران خان کی حکومت چوتھے سال میں ہے۔ بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کو ایک بڑے لینڈ مارک کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ لیکن اب آئی ایم ایف کے ساتھ دو سو ارب روپے کی ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی مان لی گئی ہے۔ یعنی بجٹ میں جو بہت سے اسکیمیں بتائی گئی تھیں ان میں سے اکثر اب ختم ہو جائیں گی۔ حکومت پیسے نہیں خرچے گی تو معیشت بیٹھے گی۔ اس لیے یہ بھی کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہے۔ عمران خان پہلے ہی سیاسی مشکلات کا شکار ہیں۔ اب ان مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ عام پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ عام پاکستانی کی قیمت پر کیا گیا یہ معاہدہ کسی بھی طرح پاکستان اور پاکستانیوںکے لیے اچھا نہیں ہو سکتا۔ اگر عمران خان نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے یہ معاہدہ کیا ہے تو یہ کوئی اچھی چال نہیں ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ اقتدار کو ٹھوکر مار دیتے۔ لیکن جس اقتدار کو بچانے کے لیے وہ ایسے معاہدے کر رہے ہیں وہ ان کی سیاست کے لیے زہر قاتل ہے۔ لوگ عمران خان سے نا امید ہو رہے ہیں۔ ویسے یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو حفیظ شیخ کو کیوں ہٹایا گیا۔
شوکت ترین صاحب تو آئے ہی اس نعرہ پر تھے کہ وہ آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ ان کے پاس تو متبادل پلان تھا۔ کہاں ہیں وہ سب پلان؟ کیا کوئی عمران خان اور شوکت ترین سے سوال کر سکتا ہے۔ لیکن شاید اب پاکستان میں ایک ایسا ماحو ل بن گیا ہے کہ سوال کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ سوال کرنے والے دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ سوال کرنا دشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے شاید آئی ایم ایف کے اس معاہدے پر سوال کرنا بھی اسے زمرے میں آتا ہے۔