قلب کا صاف ہونا
میں نے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے لیکن کوئی نہ کوئی خصوصی عمل ضرور ہو گا۔
ایک روایتِ حدیث کا مفہوم ہے کہ سرکارِ دو عالمﷺ نے فرمایا کہ انسانی جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے،اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک ہے۔اس روایت کے آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ جسم کا وہ عضو دل ہے۔اسی کو قلب بھی کہتے ہیں۔
اﷲ کے آخری نبیﷺ کے ایک نوجوان صحابی سے منقول ہے کہ ایک دن آپﷺ مسجدِ نبوی میں کچھ صحابہ کے ساتھ صحنِ مسجد میں تشریف فرما تھے۔یہ ایک بہت ہی خوبصورت محفل تھی ایسے میں آپ کے پیغام پر ایمان لانے والے ایک صحابی مسجد میں داخل ہوئے۔آپ کی نظرِ مبارک اس پر پڑی اور اپنے پیارے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ فرد جو مسجد میں داخل ہوا ہے یہ جنتی ہے۔صحابہ کو اُس پر بہت رشک آیا اور ساتھ ہی خوشی بھی ہوئی کہ اسے جنت کی بشارت مل گئی ہے۔
دوسرے دن پھر آپ مسجد میں صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے اور صحابہ کو ایمان و یقین کی باتیں بتا رہے تھے کہ وہی فرد پھر نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں داخل ہوا۔آپ نے اُسے مسجد میں داخل ہوتے دیکھا تو تبسم فرمایا اور صحابہ کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ جنتی ہے۔تیسرے دن وہی ماجرا پھر پیش آیا۔آپ اپنے پیارے صحابہ کے ساتھ صحنِ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ پھر وہ صحابی نماز کی نیت سے مسجد میں داخل ہوا۔ آپﷺ کی نظر اس پر پڑی تو آپ نے ایک بار پھر صحابہ کو مخاطب فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ جنتی ہے۔
روایت کرنے والے نوجوان صحابی بیان کرتے ہیں کہ مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ اُس پر بہت رشک بھی آیا کہ کتنا خوش نصیب ہے یہ شخص جس کو بار بار جنت کی بشارت دی جا رہی ہے اور اُس پاک ہستی کی پاک زبان سے دی جا رہی ہے جس سے بڑا کوئی اور سچا نہیں۔یعنی آپ کے لبوں سے نکلی ہوئی جس طرح کسی بھی بات میں شک نہیں اسی طرح آپ کی دی ہوئی بشارت بھی عین حق ہے۔
نوجوان راوی مزید بیان کرتے ہیں کہ جب اس انتہائی خوش قسمت صحابی نے نماز ختم کر کے گھر کی راہ لی تو میں بھی چپکے سے چند قدم کا فاصلہ رکھتے ہوئے ان کے پیچھے ہو لیا۔ میں یہ جاننے کی کوشش میں تھا کہ وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے سرکارِ دو عالمﷺنے اس صحابی کے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔تین دن ان کے ساتھ چپکے رہنے کے باوجود میں ان کے اندر کوئی خاص بات،کوئی خاص عمل نہ دیکھ سکا۔
تین دن کے بعد میں نے ان سے کہا کہ سرکارِ دوجہاںﷺ کے آپ کے لیے جنت کی بشارت دینے پر مجھے تجسس ہوا کہ میں آپ کا وہ خاص عمل جان سکوںجس کی وجہ سے یہ فضیلت آپ کو حاصل ہوئی ہے۔میں نے دیکھا کہ عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد آپ آرام سے سو جاتے ہیں۔آپ رات کو نفلی عبادت کے لیے بھی نہیں اُٹھتے۔گھر والوں کے ساتھ بھی آپ کا برتاؤ معمول کا ہے ۔بہت اچھا ہے لیکن کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آئی۔انھوں نے کہا کہ تم ٹھیک کہ رہے ہو میں بالکل سادہ اور عام سی زندگی گزارتا ہوں۔میں فرائض کو بہت خوبصورتی سے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور گناہوں سے دوری کی تگ و دو کرتاہوں،اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
میں نے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے لیکن کوئی نہ کوئی خصوصی عمل ضرور ہو گا۔ میرے اصرار پر وہ کہنے لگے کہ میرا دل ہر ایک کے لیے صاف ہے اور ہر ایک کی خیر خواہی سے بھرا ہوا ہے۔ نوجوان صحابی فرماتے ہیں کہ میں ان کی بات سن کر،ان کا شکریہ ادا کر کے چل پڑا کیونکہ بات پلے پڑ گئی تھی۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضور ختم المرسلینﷺ نے سیدنا معاذ ؓ بن جبل کو فرمایا کہ ''معاذؓ کیا میں تمھیں ایک بہترین نسخہ نہ دوں''۔سیدنا معاذ نے دست بستہ عرض کی کہ یا رسول اﷲﷺ عنایت فرمائیں۔ سرکارِ دو جہاں نے فرمایا کہ ''معاذ یہ ایسا نسخہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر بغیر سوال و جواب جنت میں داخل ہو جاؤ گے''۔سیدنا معاذ نے سوچا کہ اس دنیا میں اگر سوال ہو جائے تو بن نہیں آتی۔اﷲ کے سوالات پر بندے کا کیا حال ہو گا اور اگر وہاں سوال وجواب کے مرحلے سے گزرے بغیر کام بن جائے تو اس سے بڑی اور کیا نعمت اور خوش قسمتی ہو گی۔
سید نا معاذ بن جبل رسول اﷲ کے بہت ہی پیارے صحابی تھے۔ آپؐ نے یمن فتح ہونے پر انھیں وہاں ذمے داری سونپی تھی۔ سیدنا معاذؓ نے پھر عرض کی کہ ''سرکار عطا ہو''۔ آپؐ نے فرمایا ''معاذ ؓ اس پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے۔میرے ساتھ وعدہ کرو کہ اس پر عمل کرو گے''۔سیدنا معاذ نے ایک بار پھر دست بستہ عرض کی کہ ''حضور عطا فرمائیے۔میرے ماں باپ آپ پر فدا میںوعدہ کرتا ہوں میں عمل کروں گا''۔سرکارِ دو عالم نے سیدنا معاذ ؓ بن جبل سے تین مرتبہ وعدہ لے کر فرمایا کہ ''معاذ اگر تم ہر ایک کو معاف کرتے ہوئے اپنے دل کو ہر ایک کے لیے پاک اور صاف کر لو تو بغیر سوال و جواب جنت میں داخل کر دیے جاؤ گے''۔
قارئینِ کرام،ہم میں سے ہر کوئی اچھے اور برے حالات سے دوچار ہوتا ہے۔ اچھوں سے بھی پالا پڑتا ہے اور جو اچھے نہیں ہوتے ان سے بھی ۔ہماری زندگی میں وہ لمحات جن میں ہماری مرضی کے مطابق حالات و واقعات پیش آئیں بہت قلیل ہوتے ہیں۔زیادہ تر ناخوشگواریوں سے سامنا رہتا ہے۔
ایسے بہت تھوڑے افراد ہوتے ہیں جن کے لیے دل صاف ہوتا ہے ورنہ ہر ایک کے لیے دل میں کوئی نہ کوئی شکوہ بسا ہوتا ہے۔کبھی ہم ان شکووں کا اظہار کر پاتے ہیں ورنہ عام طور پر دل ہی میں رکھے رہتے ہیں۔ہر ایک کے لیے دل کو ہمیشہ صاف رکھنا بہت ہی مشکل عمل ہے۔خوش قسمت ہیں ایسے افراد جو اپنے دل کو دوسروں کے لیے صاف رکھتے ہیں،یہی فلاح پانے والے ہیں۔