یاد اقبال میں گم
نومبر2021 بھی اب رخصت ہونے کو ہے
نومبر2021 بھی اب رخصت ہونے کو ہے ، سردیوں کی خنکی اس مہینے ذرا بڑھ گئی ہے۔ شاعر حضرات اس مہینے کو رومانوی نوعیت کا مہینہ بھی قرار دیتے ہیں یوں تو مہنگائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے جینا محال کر رکھا ہے لیکن زندگی تو گزر رہی ہے کہ اسے تو بہتے پانیوں کے مانند اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔
اس نومبر نے پچھلے بہت سے گزر جانے والے نومبرکی یاد دلادی۔ 9 نومبر 1877 کو جب سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا۔ والدین کو ہرگز علم نہ تھا کہ یہ ننھا سا اقبال بڑے ہوکر علامہ اقبال اور شاعر مشرق کہلایا جائے گا۔ یہ وہ دور تھا جب مڈل تک پڑھنا بڑی بات اور میٹرک کرلینا بہت بڑی بات سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت محمد اقبال نے پہلے مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ مستقبل میں محمد اقبال عظیم شعراء میں سے ہوں گے یہ پیشن گوئی تو اسی دن ہوگئی تھی جب لاہور کے بازار حکیماں میں ایک مشاعرے میں محمد اقبال نے ایک غزل پڑھی ، جس کا ایک شعر یہ تھا:
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
آج کے طالب علم کی نگاہ سے علامہ اقبال کی شخصیت کو دیکھیے تو سولہ برس کی عمر سے بیس سال تک انھوں نے لاہور اورینٹل کالج میں سر ایڈون آرنلڈ سے تعلیم حاصل کی، سر ایڈون غیر مسلم تھے۔ کیا ان کی ماڈرن زندگی اور مذہبی رحجان نے اقبال کے نوخیز دماغ پر اثر نہ ڈالا تھا اور یہ ہی وہ دور تھا جب انھوں نے جدید فکر کا مطالعہ کیا جب انھوں نے فلسفے میں ماسٹرز کیا اس وقت ان کی عمر بائیس تیس برس کی ہوگی اور یہیں سے انھوں نے علم وادب ، تحقیق اور غور وفکر کی جانب بھی توجہ دی اور معاشی و معاشرتی مسائل کی جانب بھی غور کیا۔ یہ قدرت کی جانب سے خاص کرم تھا ان پر کہ انھوں نے مغربی فلسفے کو بھی دیکھا پڑھا اور سمجھا تب ان پر آشکار ہوا کہ اسلام کیا ہے؟ اس کی روح اس کا فلسفہ کیا ہے؟ یہ دور کسی بھی نوجوان کے لیے ترقی کا دور ہوتا ہے، پڑھنے لکھنے کے بعد اچھی ملازمت یا کاروبار کرنا ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے عملی طور پر آگے بڑھنا اور اقبال نے ایسا ہی کیا بہت پڑھا یونیورسٹی آف کیمرج سے وکالت کی پھر 1905 میں ہندوستان چھوڑ دیا۔ جرمنی گئے۔
ایران گئے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور وطن لوٹے تو گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے لیکن ان کے دل میں احساس بڑھتا گیا کہ وہ ایک ایسی ریاست میں رہ رہے ہیں جس کی حکمرانی کسی اور کے ہاتھ میں ہے جو ہندوستانیوں کو اپنا غلام سمجھتی ہے۔ یہ احساس شاعری میں ڈھلتا گیا صرف یہ ہی نہیں کہ انھوں نے اپنے احساسات کو شاعری میں پروکر ہاتھ جھاڑ لیے تھے بلکہ عملی طور پر بھی سیاسی میدان میں اتر کر غلامی کی زنجیروں سے نجات کی کوششوں میں جت گئے۔
ہم آج بھی انگریزوں سے بہت متاثر ہیں ، ان کا رنگ و روپ ، ماڈرن انداز زندگی، لباس، چال، اطوار، ہم تھکتے نہیں اور ان کو کاپی کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ ذرا غورکریں کہ اس دور میں اقبال کی تعلیم ان کی قابلیت تجربہ سب کمال کا تھا لیکن ان کا تعلق محکوم قوم سے تھا ، جس نے ان کے اندر کے انسان کو زخمی کر رکھا تھا۔ وہ انگریز آقاؤں کے درمیان اپنی قوم کے لیے کس انداز سے کتنے کرب سے سوچتے ہوں گے۔
ایک باشعور انسان جو حساس بھی ہو اور پڑھا لکھا بھی اس کے لیے سب کچھ جانتے ہوئے بھی غلامی کے زہر کو نگلنا کس قدر مشکل تھا لیکن آپ نے اپنے ہر انداز سے اس غلام چکر سے نکلنے کے لیے کوشش کی۔ دیکھا گیا کہ آج کل کے ماڈرن دورکے پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں تو تھام لیتے ہیں اور بڑی بڑی کتابوں اور مغربی مفکروں کے اقوال فر فر سناتے ہیں بلکہ ہمارے بہت سے دانشور مفکرین بھی مغربی فلسفیوں کی تعریفوں کے پل باندھنے میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ انھیں اپنے مفکرین ہیچ نظر آتے ہیں احساس کمتری کا یہ بخار دیکھاگیا ہے۔
دنیا بھر کے علم اور فلسفے کی خبر رکھتے ہیں لیکن اسلام سے بے خبری کا یہ حال ہے کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام مطلق خبر نہیں جب کہ علامہ اقبال نے یہ راز جان لیا تھا کہ ہمارے (مسلمانوں) کے زوال کا سبب دراصل اسلام سے دوری ہی ہے کیوں کہ اٹھارہویں صدی میں مسلمانوں کے عظیم معاشرے کی اخلاقی بے راہ روی فتنہ و فساد ا ور انگریزوں کا غلبہ حکومت پر قبضہ ان کے بچپن میں یقیناً وہ کہانیاں عام ہوں گی ، اوپر سے مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم بھی عام تھے۔ یہ سب کیوں ہوا کیسے ہوا۔ علامہ اقبال کے لاشعور میں یقیناً یہ بچپن سے ہی تھا جس نے گزرتے وقت کے ساتھ پختگی اختیار کی آپ نے کہا۔''آیندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے ، ایسا نہ ہو کہ رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک سے فنا ہوجائے۔''
یہ علامہ اقبال ہی تھے جنھوں نے سب سے پہلے شمال مغربی ہندوستان میں مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ وطن بنانے کا تصور 1930میں پیش کیا۔ علامہ اقبال نے برصغیر میں ایک آزاد ریاست کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کہ اسلام کی شریعت کی رو سے ہر شخص کو معاش کی ضمانت مل سکتی ہے اس بات کا اظہار اس خط سے ہوتا ہے جو علامہ اقبال نے قائداعظم کو لکھا تھا۔
شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون معقول طریق پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کوکم ازکم معمولی تشخص کی طرف سے اطمینان ہوسکتا ہے لیکن ایک آزاد اسلامی ریاست یا چند ایسی ریاستوں کی عدم موجودگی میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ اس ملک میں محال ہے۔
علامہ اقبال کی شخصیت کی بعض بڑی دلچسپ باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ صرف دو وقت کاکھانا کھاتے تھے اور عمر گزرتے عمدہ قسم کے کھانوں سے آپ کو کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ نوکر علی بخش ایک سالن اور دو پھلکے بنا دیتا اور پھر یوں ہوا کہ دوپہر کو کھانا کھاتے تو رات کو ناغہ کرتے اور جس دن اتفاق سے دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے تو رات کو تناول فرماتے اور یہ سلسلہ پچیس برسوں تک قائم رہا۔ سادہ کپڑے پہنتے اور عام زندگی میں بھی سادگی کا عنصر نمایاں رہا آم، انگور، خربوزے بڑے شوق سے کھاتے۔ حقہ ان کا بہترین ساتھی تھا جس کا انھیں بڑا شوق تھا آپ کا انتقال 1938 میں ہوا۔