یہ کھوکھلی باتیں کب تک

30 سال پہلے جرنلسٹ آرٹیکل لکھا کرتے تھے تو دماغ 60 دنوں کے لیے خالی ہو جاتا تھا


م ش خ November 26, 2021
[email protected]

یہ سوچ کر ہر دفعہ کالم لکھنے بیٹھ جاتا ہوں کہ ہمارا کوئی بھلا ہو جائے۔ قارئین ! آپ سوچ رہے ہوں گے ان صاحب کو اپنے مفادات کی پڑی ہوئی ہے آپ غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، ہم بھی اس عوام کی قطار میں کھڑے ہیں ، ہم کون سا چاند پر رہتے ہیں؟ پٹرول ڈلوانے کے پیسے، مہنگا دودھ خریدنے اور مہنگی چینی خریدنے کے لیے ہم بھی بازاروں کے دھکے کھاتے ہیں تو معاف کیجیے گا میں نے اپنے لیے دعا مانگ لی۔ اس میں برا ماننے کی ضرورت نہیں ویسے بھی اب ہمارے ملک میں سیاسی خام خیالی بہت ہے اور اس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ ترقی کے سارے کام رک گئے ہیں۔

قوم کو سیاسی طور پرکھوکھلی سوچ کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے ، بے کار اور کھوکھلی باتوں سے اس قوم کو کب تک بہلایا جائے گا؟ جمہوریت کا درخت بانجھ ہے قوم اس سے پھل نہ توڑ سکی اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے۔ اب یہ قوم بھیڑ چال کی گاڑی میں سفر کر رہی ہے اور نہ جانے کب تک کرے یہ تو اسے بھی نہیں معلوم ایئرلائن ہم سے نہیں چلتی ، ریلوے ہم طریقے سے نہیں چلا پا رہے ، اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں ، قومی آمدنی کا بڑا حصہ قرضوں میں چلا جاتا ہے۔

قوم بہت شرمندہ ہے ماضی کی حکومتوں سے جو قرضہ ہم پر ہے وہ ترقیاتی کاموں، قوم کی بھلائی، صحت پر توجہ، ٹرانسپورٹ کی بہتری جیسے کاموں پر خرچ ہو گیا۔ بے چارے جمہوریت کے کرتا دھرتا آئی ایم ایف سے بھی شرمندہ ہیں کہ یہ قوم بہت ناشکری ہے جو احسانات کو نہیں مانتی، یہی تو گلہ ہے ہمارے سیاستدانوں کا قوم سے۔ آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ نظام کو برباد کردوں، پچھلے 50 سال میں سیاستدانوں نے کیا کارنامے انجام دیے، ایک آتا ہے حکومت کرتا ہے ، دوسرا جانے والی حکومت کی خامیاں بیان کرتا ہے ، ہمدردی حاصل کرنے کے بعد دوسرا آجاتا ہے ، وہ بھی یہی کرتا ہے۔

سیاسی پالیسی کی کتاب رواں دواں ہے ، اب جانشین بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں کیونکہ پچھلی حکومت نے جو کچھ کیا اور کرتے رہے ، وقت گزرتا رہا دوسری نسل نے جگہ لے لی اب وہ نئی نسل کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ ملک کی نئی نسل بہت ایڈوانس اور سمجھدار ہے مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر اور بچی ہے وہ یا تو کھیتوں میں ہل چلا رہی ہے اور جو شہر میں ہیں وہ گدھا گاڑیاں، رکشہ، تانگے، بسیں چلا رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے تعلیم پر توجہ نہیں دی اسکول تو دیہاتوں میں بن گئے مگر ان میں جانور پلتے رہے ،جب نئی حکومت آتی ہے تانبے کا کشکول لے کر دنیا کے گرد گھومتی ہے اور اسے سونے سے بھر کر لے آتی ہے پھر وہ سونے کے تاج قوم کو نہیں پہنائے جاتے پھر ایک طبقہ اس سونے کے نقش و نگار بنوا کر اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے۔

کاغذوں میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے آنے والی حکومت اور جانے والی حکومت کی چیخیں نکل جاتی ہیں ، دہائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کرپشن کے شامیانے کھڑے کردیے جاتے ہیں اس میں نیک لوگ تشریف فرما ہوتے ہیں جو آنسوؤں سے پچھلی حکومت کو باجماعت کوس رہے ہوتے ہیں ، جن پر کرپشن کے داغ داغے جاتے ہیں وہ الزامات کا ڈھول بجا کر بھنگڑا ڈالتے ہیں جو پچھلی حکومت سے نئی حکومت میں آتے ہیں وہ پارس کے ہوتے ہیں اور قوم میں سرخرو ہوکر بین بجاتے ہیں اور قوم خوش ہوتی ہے کہ اب ہم سب چاند پر ہوں گے اور چند ماہ تو تسلیاں دینے میں گزر جاتے ہیں پھر ہمیشہ 5 سال تسلیاں دیتے رہو میں گزر جاتے ہیں پھر آنے والی حکومت کے کارنامے گنوائے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ 40 سال سے متواترکسی پرانی گاڑی کے ٹائر کی طرح چل رہا ہے۔

اس ٹائر کو صرف الیکشن میں نئے سرے سے بنوایا جاتا ہے جو جیت جاتا ہے وہ پھر ٹائر بدل دیتا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اپوزیشن نے الاؤنسز بڑھانے کی قرارداد جمع کرائی جو کثرت رائے سے منظور ہوگئی جلسے جلوس، شور شرابا، کنٹینر تروپ، تصاویر سب دھری کی دھری رہ گئیں، اسے کہتے ہیں نہ ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آگیا۔ایک موصوف فرماتے ہیں کہ اگلی حکومت سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ سے بنے گی پاکستان ایک کھلا میدان ہے یہاں لوگ ہی نہیں بستے۔ یعنی کہ باہر کے ممالک میںجو لوگ رہتے ہیں۔

ان میں سے بیشتر تو صاحب حیثیت ہیں اور دونوں ملکوں کی شہریت رکھتے ہیں غالباً سنگاپور ایسا ملک ہے جو دہری شہریت نہیں دیتا سمندر پار پاکستانیوں کا مہنگائی سے کیا تعلق وہ آرام کی زندگیاں بسر کر رہے ہیں صرف چھٹیاں گزارنے یا پھر خوشی غم میں آتے ہیں اگر یہاں رہنے والے قوم کو سہولتیں دیتے تو وہ باہر ہی کیوں جاتے؟ بھلا بتائیے واجبات کی عدم ادائیگی پر بجلی بند کردی جاتی ہے جو بل دیتے ہیں باقاعدگی سے وہ مکڑیوں کی طرح خاموش گھروں میں اپنے نصیب کو کوستے رہتے ہیں اور جو بجلی استعمال کر رہے ہیں معمولی کام سے جو دن میں دو ہزار کماتے ہیں وہ دھڑلے سے کنڈے استعمال کرتے ہیں، سوپ کے ٹھیلے، ٹائر پنکچر کی دکانیں، جوس کے ٹھیلے، فروٹ کے ٹھیلے، بڑے بڑے کپڑے کے پتھارے، چھولے اور پائے کے ٹھیلے شامل ہیں روڈ پر ناجائز جو قبضہ ہے اس کا کوئی تذکرہ نہیں شرفا گاڑیوں کے ٹیکس دیتے ہیں، روڈ پر کھڑا کرنے کے لیے وہاں پارکنگ والے موجود ہیں اور جو ناجائز پتھارے لگے ہوئے ہیں وہ پارکنگ کی جگہ ہے ان سے کوئی پارکنگ نہیں لی جاتی دریا الٹا بہہ رہا ہے تعلیم یافتہ طبقہ سخت اذیت کا شکار ہے صوبے کے کرتا دھرتا کہتے ہیں ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے بہتر مواقع موجود ہیں۔

30 سال پہلے جرنلسٹ آرٹیکل لکھا کرتے تھے تو دماغ 60 دنوں کے لیے خالی ہو جاتا تھا اور سوچتے تھے کہ اب کس موضوع پر لکھیں؟ یہاں تو یہ عالم ہے کہ 60 گھنٹے میں دماغ کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں ہر بااثر شخص اپنی بات منوانے میں لگا ہوا ہے اور قوم ہے کہ اب ٹھیلے پر پھٹی ہوئی چڈی پہنے بیٹھی ہے ہم پاکستانیوں نے بہت ترقی کرلی ہے فٹ پاتھیں ختم ہوئی، ان کی جگہ معزز اور طاقت ور لوگوں نے ٹھیلے لگالیے ہیں کچھ پارٹیوں کے ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہیں وہ پابندی سے قوم کی خیرخواہی کے لیے زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ نئی خبریں یہ بھی ہیں کہ سردیوں میں گیس کی شدید قلت ہوگی مگر اس کی قیمتیں بڑھانے کی بات ہو رہی ہے اگر گیس کی قیمت میں اضافہ ہو تو پاکستان غالباً پہلا ملک ہوگا جو گیس نہ ملنے کی صورت میں قیمتوں میں اضافہ کرے گا یہاں بڑے سے بڑا واقعہ ہوجائے صرف تبادلہ کیا جاتا ہے یہی ہماری قابلیت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں