جنوبی ایشیا میں مذاہب
روابط کی پابندیاں آج تک برقرار ہیں، لیکن پیشہ ورانہ ترجیحات تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔
ذات (Caste) کی اصطلاح مغربی الاصل ہے جس کی بنیاد لاطینی لفظ ''کاسٹس'' ہے، جس کا مطلب ہے خالص۔ ظاہر ہے کہ یہ اس وقت تخلیق اور متعارف کرائی گئی تھی جب مغربی (پرتگالی، ڈچ، فرانسیسی، برطانوی) بحری جہاز اور فاتح ہندوستان آئے اور یہاں انھوں نے جو معاشرہ پایا، اسے سمجھنے اور بنانے کی کوشش کی۔ ہندو مت میں موجود سماجی تفریق نے ذات پات کو جائز قرار دیا، جو آبادی کو سختی کے ساتھ بالکل الگ مرتبوں والے گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔
روایتی طور پر ایک ذات کے افراد دوسری ذاتوں کے افراد کے ساتھ شادی نہیں کر سکتے، وہ مخصوص پیشوں کے پابند ہیں اور پاکیزگی کے اصول بھی ان کے آپسی میل جول کو محدود کرتے ہیں۔ جدید ہندوستان میں ذات پات کا نظام قانون کے رو سے ممنوع ہے، لیکن شہری اور دیہی ماحول میں یہ وسیع سطح پر رائج العمل ہے۔ روایتی ہندو سماجی ترتیب، جسے انگریزی میں ''ذات'' کی اصطلاح کے ذریعے بیان کیا گیا ہے، دو بالکل مختلف مفاہیم پر مشتمل ہے، یعنی ورن اور جاتی۔
سنسکرت میں ورن(Varna) کا مطلب ہے رنگ، سب سے اونچی ذات والوں کی جلد کا رنگ ہلکا ترین اور سب سے کم ذات والوں کی جلد کا رنگ گہرا ہوتا ہے۔ روایتی طور پر چار ورن ہیں جن میں برہمن (روایتی دانشور اشرافیہ جن کی ویدوں کو پڑھنے اور اس کی تشریح کرنے پر اجارہ داری ہے، پجاری)، کشتری (روایتی طور پر جنگجو، اعلیٰ منتظم، بادشاہ)، ویشیا(تاجر، زمیندار، کاشت کار) اور شودر (کاریگر، مزدور، بے زمین کسان) شامل ہیں۔ ان چار ورنوں کے نیچے دلت (مطلب دبے ہوئے) ہیں جو خود بھی مختلف سماجی حیثیتوں کے ساتھ بہت سے گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، تاہم اوپر کے چاروں ورنوں میں زیادہ تر انھیں ''اچھوت'' (جنھیں چھوا نہیں جا سکتا) سمجھا جاتا ہے۔
جاتی (مطلب پیدائشی) ایک قسم کا پیشہ ورانہ گروہ ہے۔ ہندوستان میں ہزاروں جاتیاں پائی جاتی ہیں جن کا عموماً مقامی یا علاقائی مفہوم ہوا کرتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ ہر جاتی کا تعلق ایک مخصوص ورن سے ہے لیکن اس کی فہرست یا اس کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔
ایک شخص ایک جاتی میں پیدا ہوتا ہے، اس کو اپنی زندگی اسی جاتی کے اندر گزارنی پڑتی ہے، جس سے باہر نکل کر کسی اعلیٰ جاتی میں داخل ہو کر سماجی حیثیت کو بہتر کرنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا (اور آج بھی شاید ہی کوئی امکان ہو)۔ ایک جاتی اس طرح ایک وسیع خاندانی نظام یا قبیلہ ہے، جس کا نہ صرف پیشہ ایک ہوتا ہے بلکہ روایت، ثقافت، اقدار اور آباؤ اجداد بھی مشترک ہوتے ہیں۔ ہر جاتی پر بزرگوں کے ایک گروپ کی حکمرانی ہوتی ہے، جو روزمرہ زندگی کے مختلف معاملات میں پیدا ہونے والے تنازعات کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ورن قدیم نژاد ہیں۔ ان کا تذکرہ سب سے پہلے رگ وید کے وقت تقریباً پندرہ سو قبل مسیح میں ملتا ہے۔ قدیم متون میں پہلے دو ورنوں کا ذکر کیا گیا تھا، یعنی ہلکے رنگ والے اور گہرے رنگ والے۔ آریائی آبادی جو تقریباً تین ہزار قبل مسیح میں ایشیا سے برصغیر آئی تھی، کا تعلق ہند آریائی لوگوں کے گروہ سے تھا، جس میں کاکیشین اور یورپی شامل تھے۔
جب یہ آریائی داخل ہوئے تو انھوں نے برصغیر کو گہری رنگت والی جلد کے مقامی قبائلی لوگوں سے آباد پایا، لہٰذا ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ فرق تارکین وطن اور مقامی آبادی کے درمیان تھا۔ صرف بعد کے متون میں ہلکے رنگ کو تین گروہوں برہمن، کشتری اور ویشیا میں تقسیم کرنے کا ذکر کیا گیا ہے، اور لگتا ہے کہ شودر ہی گہری رنگت کا ورن بن گیا۔
تازہ ترین جینیاتی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ 4200 سال قبل ورنوں کے درمیان رابطے کی کوئی پابندی نہیں تھی، اور ہونے والے اختلاط کے نتیجے میں کچھ کا رنگ گہرا اور کچھ کا ہلکا ہو گیا۔ صرف 1900 سال قبل ہی یہ اختلاط بند کر دیا گیا، اور آپسی روابط اور شادی کی پابندیاں عائد کی گئیں۔ شمال سے آنے والے آریائی تارکین وطن بہت آہستہ آہستہ مشرق اور جنوب کی طرف بڑھے، اور بہت بعد میں جنوبی ہندوستان پہنچے جب کہ روابط پہلے ہی ممنوع ہو گئے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی ہندوستان میں اصل آبادی کی جلد کا رنگ نسبتاً گہرا رہا۔
روابط کی پابندیاں آج تک برقرار ہیں، لیکن پیشہ ورانہ ترجیحات تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ جب انگریزوں نے ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جو سب کے لیے کھلے تھے، تو برطانوی راج میں برہمنوں نے وید پڑھنے کی اجارہ داری کھو دی۔ جب کلکتہ میں 1824 میں سنسکرت کالج قائم ہوا، جہاں طلبہ سنسکرت پڑھ سکتے تھے، اس سے وید پڑھنے کا راستہ کھل گیا۔ اس کے علاوہ یورپی علما نے ویدوں کا باقاعدہ مطالعہ، ترجمہ اور تدوین کرنا بھی شروع کر دیا، اور یوں یہ صحیفے سب کے لیے دستیاب ہو گئے۔
برہمنوں کے بنیادی پیشوں میں سے ایک یعنی ویدک رسومات کی ادائیگی بھی نایاب ہو گئی اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے انیسویں صدی میں ضرورت مند غریب برہمنوں کے بارے میں پڑھا، جو نوآبادیاتی انتظامی سروسز یا تعلیمی اداروں میں نوکریوں کے لیے گئے۔ وہاں انھیں دوسرے ورنوں کے لوگوں سے مقابلہ کرنا پڑا جنھوں نے کالج پاس کیا تھا اور نوکریوں کے لیے درخواستیں دینا شروع کی تھیں۔ آج برہمن اچھے ریستورانوں میں باورچی کے طور پر کام کرتے ہوئے مل سکتے ہیں کیوں کہ بہت سے امیر اعلیٰ ذات کے مہمان نچلی ذات کے کسی فرد کا پکایا ہوا کھانا نہیں کھانا چاہتے۔
اس کے الٹ، آج جدید دور کے بھارت میں نچلے ورنوں کے نمایندے سماجی زندگی میں اچھے عہدوں پر پہنچ سکتے ہیں، سیاست میں شامل ہو سکتے ہیں اور ایک کاروباری شخص کے طور پر امیر بھی بن سکتے ہیں۔ کے آر نارائنن 1997 سے 2002 تک بھارت کے پہلے صدر تھے جو پیدائشی طور پر ''اچھوت'' تھے لیکن اس کے باوجود ان کے لیے کسی ورن خاندان میں شادی کے دروازے نہ کھلے۔ عام طور پر، ورن یا حتیٰ کہ جاتی بھی کسی شخص کے نام سے قائم کی جا سکتی ہے۔
شرما اور بینرجی مخصوص برہمن نام ہیں، دوسرے نام کسی شخص کے دوسرے ورن یا اچھوتوں سے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ شادی کے لیے بلاشبہ مکمل چھان بین کی جاتی ہے تاکہ صحیح ورن یا جاتی سے دلہن تلاش کی جا سکے۔ نچلی ذات میں شادی کرنے سے کوئی شخص اپنی اعلیٰ ذات کی حیثیت کھو دیتا ہے۔
ہندو سماج میں مراتب کے لیے پاکیزگی کا خیال اہم ہے۔ آج بھی بعض پیشوں کو نجس سمجھا جاتا ہے، جیسا کہ چمڑے کا کام کرنے والے، حجام، دھوبی، کچرا اٹھانے والے۔ اپنی پاکیزگی کو بلند رکھنے کے لیے ورن اور جاتیوں والے نیچ والوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں، مثال کے طور پر وہ نوکروں کے زیر استعمال برتن استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن جدید زندگی میں یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا، بالخصوص شہری علاقوں میں، جہاں ہم ملنے والے لوگوں کے نام اور سماجی حیثیت سے واقف نہیں ہوتے۔
بھارتی آئین میں ذات پات سے منسلک ناموافق احوال کی ممانعت کے باوجود، یہ ہزاروں سال پرانے رسم و رواج اور عقائد زندہ ہیں اور آہستہ آہستہ ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں اور ایڈمنسٹریشن میں کم تر ذاتوں اور قبائل کے زمرے کے لیے ملازمتوں میں سیٹیں مختص ہیں، جو سماجی ناانصافی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم اسے ختم نہیں کر سکتے۔
ایک دل چسپ حقیقت جس کا مشاہدہ پاکستان میں بھی کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ پاکیزگی اور ذات پات کے نظریات کو دیگر مذہبی برادریوں میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ نچلی ذات یا اچھوت لوگوں کے عیسائیت یا اسلام میں داخل ہونے کی ایک وجہ ہندو ذات پات کے نظام کی عدم مساوات سے بچنا ہو سکتا ہے، تاہم آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکا۔
مثال کے طور پر صدیوں تک مسلمان اور ہندو ایک ساتھ رہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے بھی پاکیزگی اور ناپاکی کے تصورات کو اپنایا۔ سفید چمڑی والی دلہن تلاش کرنے کی کوشش کرنا، نوکروں اور مزدوروں کے لیے الگ، اکثر پینے کا دھاتی گلاس رکھنا پاکستان میں عام ہے۔ یہاں تک کہ شادی کے لیے ہم سفر بھی اکثر برادری یا قبیلے سے تعلق کی بنیاد ہی پر منتخب کیے جاتے ہیں۔
سری لنکا میں عدم مساوات کے ان نظریات کو بدھ مت کی آبادی میں بھی اپنایا گیا ہے۔ اسلام، عیسائیت اور بدھ مت لوگوں کی بنیادی مساوات کے تصورات کی توثیق کرتے ہیں، لیکن طویل عرصے تک ہندو مت کے ساتھ رہنے کی وجہ سے یہ تبدیلیاں آ گئی ہیں۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)