بھارتی کسانوں کی پر امن تحریک کی کامیابی

مودی حکومت نے کئی دفعہ کسانوں کو مذہب اور ذات پات کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ کوششیں ناکام ہوگئیں۔


Dr Tauseef Ahmed Khan November 27, 2021
[email protected]

متحدہ ہندوستان میں مزاحمتی تحریکوں کی جدوجہد کی ایک تاریخ ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس ، کمیونسٹ پارٹی، مزدور ، کسان ، طلبہ، ادیبوں اور دانشوروں کی تنظیموں کی جدوجہد کے نتیجہ میں ہندوستان کی آزادی کا پیغام گاؤں گاؤں پہنچا اور انگریز سامراج کو اپنی نوآبادیات کو آزاد کرنا پڑا۔

مہاتما گاندھی ، پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابو الکلام وغیرہ نے مزاحمتی تحریکوں کو منظم کرنے کی پاداش میں اپنی زندگی کے بیشتر سال قید خانوں میں بسر کیے۔ بھارت کی آزادی کے بعد پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

ان کی حکومت نے معاہدہ کے خلاف پاکستان کو اس کے اثاثے واپس کرنے سے انکار کیا تو مہاتما گاندھی نے بھوک ہڑتال کی۔ ایک مذہبی انتہا پسند ہندو نے مہاتما کو قتل کیا ، مگر بھارت میں مزاحمتی تحریکوں کی ایک روایت قائم ہوئی اور یہ روایت تمام تر غیر جمہوری حالات کے باوجود آج تک قائم ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی ایک تنگ نظر فاشسٹ جماعت ہے۔ اس جماعت کے رہنما مودی کے دہلی میں اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں سیکولر اور جمہوری روایات پامال ہورہی ہیں ، مگر بھارت میں بائیں بازو کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی متحرک ہیں ، اس بناء پر مزاحمتی تحریکیں منظم ہورہی ہیں۔ بھارتی حکومت نے شہریت کا ایک متنازعہ قانون نافذ کیا جس کا براہِ راست نشانہ مسلمان بنے جو ہندوؤں کے بعد آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہیں۔ اس قانون کے تحت ہزاروں سال سے بھارت کے مختلف علاقوں میں آباد مسلمانوں کی شہریت مشکوک ہوگئی۔

اس متنازعہ امتیازی قانون کے خلاف مختلف ریاستوں میں احتجاج ہوئے مگر گزشتہ سال دہلی کی متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین نے دہلی کے علاقہ شاہین باغ میں دھرنا دیا۔ اس دھرنا میں جوان، ادھیڑ عمر اور بوڑھی عورتیں شریک ہوئیں ، ان میں سے کچھ برقعہ میں تھیں۔ کچھ خواتین اپنے بچوں کو ساتھ لاتی تھیں۔ یہ ایک غیر مذہبی تحریک تھی جو مہینوں تک جاری رہی اور کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی بناء پر یہ دھرنا ختم ہوا۔ اس دھرنا میں شرکت کرنے والی بیشتر خواتین کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں تھا۔ اس دھرنا کی حمایت کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی سمیت تمام تنظیموں نے کی تھیں۔

بہت سی غیر مسلم باشعور خواتین بھی اس دھرنا سے یکجہتی کے لیے آتی تھیں۔ پولیس نے اس خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے مگر پہلی دفعہ کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینے والی خواتین نے ہر مشکل کو برداشت کیا۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ دھرنا کے شرکاء فوری طور پر اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے مگر شاہین باغ کے دھرنا نے مسلمان خواتین میں شعور پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے مستقبل میں دوررس نتائج برآمد ہونگے۔

بھارت کے وزیر اعظم مودی کے بارے میں بھارتی صحافیوں کی رائے تھی کہ مودی بظاہر تو ہندو توا کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہندو توا کا مقصد بھارت کی سیکولر ریاست کا تشخص تبدیل کرنا اور اس ریاست کو ہندو ریاست بنانا ہے مگر دراصل مودی ملٹی نیشنل کارپوریشن کے نمایندے ہیں۔ ان کی اقتصادی پالیسیوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ہر شعبہ میں فری مارکیٹ اکانومی کی پالیسیاں نافذ کررہے ہیں اور ریاست کے فلاحی کردار ختم کررہے ہیں۔ دہلی حکومت نے گزشتہ سے پیوستہ سال زرعی شعبہ کو مارکیٹ اکانومی سے منسلک کرنے کے لیے تین قوانین نافذ کیے۔

ان قوانین کے ذریعے منڈی میں مقامی افراد کا کردار ختم ہوجانا تھا اور ملٹی نیشنل کارپوریشن کے تحت زرعی اجناس اور فصلیں خریدتے اور اپنی مرضی سے قیمتوں کا تعین کرتے۔ یہ معاملہ صرف زرعی اجناس تک محدود نہیں رہتا بلکہ بیج، کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویات کی فراہمی اور ان کی قیمتوں کا تعین ان کارپوریشنوں کے ارباب اختیار کے پاس چلا جاتا۔ ٹریکٹر اور دیگر مشینوں کی فراہمی اور قیمتوں کا تعین کرنا پہلے سے ہی ان کارپوریشن کے ہاتھ جاچکا ہے۔ بھارت میں کسانوں کی جدوجہد کی ایک تاریخ ہے۔

ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی نے کسانوں کے حقوق کے لیے 30ء کی دھائی سے آگاہی کی تحریکیں شروع کردی تھیں۔ ایک زمانہ میں پنجاب، یو پی، آندرا پردیش، بنگال اور بہار وغیرہ میں کسان تحریکیں خاصی سرگرم تھیں۔ سابق ریاست حیدرآباد دکن میں تلنگانہ تحریک نے (جس کے قائد معروف انقلابی شاعر مخدوم محی الدین تھے) پورے بھارت میں کسانوں کی جدوجہد کو ایک نیا راستہ دکھایا تھا۔ اس دفعہ پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش(یو پی) کے کسان تحریک متحرک تھے۔ ان کسانوں نے جن میں امیر سے لے کر غریب اور بے زمین کسان شامل تھے اس تحریک کو منظم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

لاکھوں کسانوں نے ٹریکٹر ٹرالیوں پر سوار ہوکر دارالحکومت نئی دہلی پر یلغار کردی۔ ان کسانوں کو راجھستان، یو پی، پنجاب اور ہریانہ میں پولیس کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مرکزی سرکار کے حامیوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔ کئی مقامات پر اس گروہ نے کسانوں کی ریلیوں پر حملہ کرکے منتشر کرنے کی کوشش کی مگر گزشتہ تمام رکاوٹیں ان علاقوں میں قیامت کا جاڑا تھا۔ یوں کسانوں پر ٹھنڈے پانی کی تیز رفتار دھار پھینکی گئی اور کہیں پولیس والوں نے ڈنڈے برسائے۔

لاکھوں کسانوں کو جو ٹریکٹروں پر سوار تھے دہلی کے دروازوں پر روک لیا گیا۔ کسانوں کے دھرنوں کی ایک خاص خصوصیت یہ تھی کہ خواتین کی اکثریت ان دھرنوں میں شامل تھی۔ یہ خواتین اپنے اپنے گروپوں کے افراد کے لیے صرف کھانے نہیں بناتی تھیں بلکہ سیاسی بحث و مباحثہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ ان خواتین نے بار بار کہا کہ متنازعہ قوانین کی منسوخی تک وہ واپس نہیں جائیں گی۔ لاہور کی سرحد سے متصل بھارتی پنجاب میں جو کسان کھیتوں میں نظر آتے ہیں ، وہاں سے لے کر یو پی کے مختلف دیہاتوں تک کے تمام کسان اس تحریک میں شامل ہوئے۔

مودی حکومت نے کئی دفعہ کسانوں کو مذہب اور ذات پات کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ کوششیں ناکام ہوگئیں ، ان دھرنوں میں کسانوں کو تعلیم اور مطالعہ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا۔ کسان روزانہ اپنا اخبار شایع کرتے تھے جو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پڑھا جاتاتھا ، کتابوں کے اسٹال بھی جگہ جگہ موجود تھے۔ دھرنا میں شرکت کرنے والے اپنا وقت محض بحث و مباحثہ یا گپ شپ پر نہیں گزارتے تھے بلکہ فالتو وقت میں کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے، یوں گھروں سے دوری کے باوجود ان کے کتابوں کے پڑھنے کے ہدف پورے ہوئے۔ انقلابی گانے، رقص اور تھیٹر کا انعقاد لازمی تھے۔

ایک انتہا پسند گروپ نے خالصتان کی تحریک سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ بھارت کے مین اسٹریم میڈیا نے پہلے ان دھرنوں کو نظرانداز کیا ، صرف این ڈی ٹی وی نے مسلسل اس تحریک کو کور کیا۔ کسانوں میں بیشتر سکھ اور ہندو جاٹ تھے۔ مسلمان اور عیسائی کسان بھی دھرنا میں شریک تھے۔ صاحب ثروت مسلمانوں نے دھرنے کے شرکاء کے لیے چائے کے اسٹال لگائے اور مفت کھانا تقسیم کیا، یوں ایک سیکولر کلچر پروان چڑھا۔ مودی حکومت کو ایک سال بعد کسانوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ وزیر اعظم مودی نے کسانوں سے معافی مانگی اور ان تینوں قوانین کی منسوخی کا اعلان کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔