137 برس میں کیا بدلا
نیاز صاحب ہمیں فروری 1922 میں ’’اشتراکیت‘‘ کے معاملات و مسائل پر خامہ فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔
'' ہر زمانے میں بعض ہستیاں قبل از وقت پیدا ہوجاتی ہیں، جو دراصل مستقبل کی پیش گوئی ہوا کرتی ہیں۔ایسے لوگ جب مستقبل میں سامنے آتے ہیں تو لوگ واقعتاً چونک پڑتے ہیں اور ان میں ایک خاص عظمت و تقدس محسوس کرنے لگتے ہیں۔''
نیاز صاحب نے یہ الفاظ غالب کے بارے میں لکھے تھے لیکن ان کی اپنی بھی یہی کہانی ہے۔ وہ جس عہد میں پیدا ہوئے اس میں کبھی تکفیرکے فتوئوں نے ان کا تعاقب کیا۔ کبھی وہ سرسید کی طرح نیچری کہلائے اور کسی نے ان کا ناتا ملاحدہ سے جوڑا۔
غرض یہ کہ جس زمانے میں وہ پیدا ہوئے اس میں انھیں پہچانا نہیں گیا اور اس کے بعد تو وہ دور آیا جس میں نیاز ایسے خرد افروز اور خیال پرور انسان کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ابھی اس زمانے کا انتظار ہے جسے نیاز کا زمانہ کہا جائے۔ لوگ ان کی تحریروں سے ان کی بڑائی کا اعتراف کریں اور ان کے خیالات کی روشنی میں ان کا احترام کریں۔
نیاز صاحب کے جسم میں آزادی فکر کا لہو گردش کرتا تھا۔ یہ وہی آزادی فکر ہے جس سے تعقل و تدبر کی، بغاوت اور انحراف کی راہیں پھوٹتی ہیں۔ یونانی اصنامیات کا پرومی تھیسس اور سامی روایات کی حوا ، اسی آزادی فکر اور انحراف کی اعلیٰ مثالیں ہیں ، وہ ایک آزاد فکر اور روشن دماغ انسان تھے۔ لکیرکا فقیر ہونے سے انھیں نفرت تھی۔
قلم انھوں نے انشا پرداز کا اور ذہن آزادی سے سوچنے والے، شک کرنے اور سوال اٹھانے والے کا پایا تھا ، وہ کسی بات کو محض اس لیے درست تسلیم نہیں کرتے تھے کہ بزرگوں کی کہی ہوئی ہے۔ وہ اپنے عہد کے معتزلی تھے اور انھوں نے کٹھ ملائیت ، تعصب، تنگ نظری اور تنگ دلی کے خلاف نہ صرف اپنے قلم سے جہاد کیا بلکہ اپنے رسالے نگارکے ذریعے ایک ایسا محاذ قائم کیا جس میں برصغیر کے تمام روشن دماغ اور آزاد فکر رکھنے والوں کی تحریریں چھپتی تھیں۔
روشن خیالی اور اعتزال '' نگار '' کی اساس تھے۔ اس میں ادب ، فلسفی ، مذہب اور سائنس غرض ہر شعبہ سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے اور لوگوں کو ان معاملات و مسائل پر نئے انداز سے غورو فکر کے لیے مجبور کرتے تھے۔اس کی فائلوں کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں 20 ، 30 اور 40 کی دہائیوں میں وہ موضوعات نظر آتے ہیں، جن کے بارے میں آج ہمارے اخبار اور رسالے کچھ چھاپتے ہیں تو اس پر ناز کرتے ہیں کہ وہ جدید ترین مسائل اٹھا رہے ہیں۔
کس قدر دلچسپ بات ہے کہ نیاز صاحب ہمیں فروری 1922 میں ''اشتراکیت'' کے معاملات و مسائل پر خامہ فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ انقلاب روس کو برپا ہوئے اس وقت پانچ برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح وہ '' سرطان '' پر دسمبر 1925 میں قلم اٹھاتے ہیں اور''انسولین '' کے بارے میں اپنے پڑھنے والوں کو جنوری 1926 میں آگاہ کرتے ہیں۔
فرانسیسی منجم ناسٹراڈیمس جس کے نام سے لوگ ان دنوں ایک فلم کی وجہ سے متعارف ہوئے۔ اس کے بارے میں نیاز صاحب نے اپریل 1924 میں ''ناسٹراڈیمس کی عجیب و غریب پیش گوئیاں'' کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اسی طرح وہ ہمیں جدید نفسیات ، ہپناٹزم ، مقناطیسی نیند ، مسمریزم اور جنسیات پر لکھتے ہوئے ملتے ہیں۔ کہیں وہ ہمارے سامنے ایک افسانہ نگار کے روپ میں آتے ہیں تو کبھی نہایت دقیق فلسفیانہ مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہیں۔
کہیں وہ مذہبی اعتقادات کے بارے میں مدلل بحثیں کرتے ہیں اور کبھی تاریخ اور افسانے کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپریل 1924 میں '' اہل مریخ سے گفتگو کا امکان'' جنوری 1924 میں '' جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد '' اور 1935 میں ''چاند کا سفر'' ان کے وہ مضامین ہیں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور ان کے تجسس اور سائنسی رجحان رکھنے والے ذہن کا پتہ دیتے ہیں۔
غورو فکر سے نئی راہیں نکلتی ہیں اور خیال کی قلمرو سے بنی حقیقت کی تعمیر کے لیے سامان مہیا ہوتا ہے۔ انھوں نے نئے اور پرانے خیالات کا از سر نو غورو فکر کیا اور جن نتائج پر وہ پہنچے انھیں دوسروں تک پھیلانا اورپہنچانا انھوں نے لازمی اور ضروری سمجھا۔ فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈوماکی طرح وہ بھی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ:
''انسان دیکھے جاسکتے ہیں، ٹٹولے جاسکتے ہیں، تم انھیں پکڑ سکتے ہو ، ان پر حملہ کرسکتے ہو ، اور قید کرکے ان پر مقدمہ چلاسکتے ہوانھیں تختہ دار پر لٹکا سکتے ہو۔ لیکن خیالات پر اس طرح قابو نہیں پایا جاسکتا۔ وہ غیر محسوس طور پر پھیلتے ہیں، نفوذ کرجاتے ہیں، چھپ جاتے ہیں اور اپنے مٹانے والوں کی نگاہوں سے مخفی ہوجاتے ہیں۔ روح کی گہرائیوں میں چھپ کر نشوونما پاتے ہیں، پھلتے پھولتے ہیِں، جڑیں نکالتے ہیں، ان کی جو شاخیں بے احتیاطی کے سبب ظاہر ہوجائیں تم اگر انھیں کاٹ ڈالو گے تو زمین میں پھیلی ہوئی ان کی جڑیں اتنا ہی مضبوط ہوجائیں گی۔''
علامہ نیاز خیالات کی سخت جانی پر ایمان رکھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے کبھی اس کی پروا نہ کی کہ ان کے خیالات وافکار پر کسی طر ف سے حرف زنی ہورہی ہے ۔ کون انھیں کافر قرار دے رہا ہے، کس نے انھیں ملحد کہا ہے، کس کے خیال میں وہ گردن زنی ہیں اور کس کی نظر میں وہ قابل دار۔ وہ جانتے تھے کہ اچھے اور نئے خیالات کو کتنا ہی دھتکارا جائے آخر کار وہ جیت جاتے ہیں۔
انھوں نے جن خیالات کو دلیل و دیانت کی کسوٹی پر پرکھ کر کھرا جانا انھیں لفظوں کا جامہ پہناکر کاغذ کے سپرد کرتے رہے۔ ان کے اندر اس احساس کا چراغ ہمیشہ روشن رہا کہ آج نہیں تو کل یہ خیالات سماج میں اپنی راہ بنائیں گے۔ کوئی دن تو ایسا آئے گا کہ سماج میں مختلف معاملات پر سوال اٹھانے والے، بحث و تمحیص کرنے والے اور قدیم اعتقادات کونئے زاویوں سے دیکھنے والے محترم ٹھہریں گے۔
وہ مرد تھے ، مرد معاشرے میں پیدا ہوئے تھے لیکن غیر جانبداری ان کے پور پور میں رچی بسی تھی۔ اس غیر جانبداری نے انھیں عورت کی حمایت پر کمربستہ کیا اور وہ اس زمانے میں عورت کا مقدمہ لڑنے پر مجبور ہوئے جب ''بہشتی زیور'' اکثریت کی لڑکیوں کو جہیز میںدیا جاتا تھا اور جس کے صفحوں پر عورت کے لیے زندگی کے شب و روز رقم تھے جو آج جاگیرداروں اور خرکاروں کی ذاتی جیل میں زندگی جھیلنے والوں کے طور طریقے ہیں۔
ہم بت شکن کہلانے کو سب سے بڑا اعزاز جانتے ہیں وہ روایت شکن تھے اور اسی کو اپنا فخر جانتے تھے۔ ہم اسلاف پرستی کے قائل ہیں وہ عقل پرستی پر عامل تھے۔ ہم اشاعرہ کے مقلد ہیں انھوں نے متعزلہ کی راہ اختیارکی۔ وہ فتح پور میں نہیں فرانس میں پیدا ہوتے تو روسو اور والٹیر قرار پاتے۔ ان کی تحریریں کسی انقلاب عظیم کا سبب بنتیں۔ کسی بیستائل کی دیواریں گراتیں لیکن وہ تو ایک ایسی قوم کے فرد تھے جس نے اپنے بڑوں کی ہمیشہ تکفیر و تکذیب کی۔
جس نے ابن رشد ایسے عبقری سے مسجد قرطبہ کی سیڑھیوں پر نمازیوں کی جوتیاں صاف کرائیں جس نے ابن حزم اور ابن خلدون کو قید کیا۔ جس نے منصور کو دار پر گھسیٹا، امام رازی، ابو عثمان مغربی اور فردوسی کو در بہ در خاک بہ سر رکھا اور جس نے اپنے نہ جانے کتنے اکابرین کی کتابیں جلانے کی سعادت حاصل کی۔
وہ آج سے 137 سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے برصغیر میں عقل دوستی اور خرد افرروزی کے جو چراغ جلائے افسوس کہ نہ ان میں اضافہ ہوا اور نہ اس آب و تاب سے روشن رہ سکے۔ یہ ہمارے سماج کی پستی وپسپائی ہے کہ نیاز کا وارث نہ پیدا کرسکا۔ وہ بہ بانگ دہل لوگوں کو تعقل و تفکر پر اکساتے رہے اورتمام متنازعہ مسائل پر کھل کر اظہار خیال کرتے رہے ۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 137 سال پہلے تھے۔ ذرا سوچیں، کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوگی۔