احتجاج…رنگ بھی الگ الگ …
احتجاج بنیادی طور پر صنعتی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں عوام الناس کی سوچ جمہوری رنگ لیے ہوتی ہے اور عوام سمجھتے ہیں کہ۔۔۔
احتجاج کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی تاریخ ہے۔ ہر دور میں احتجاج مختلف انداز واشکال کا حامل رہا ہے۔ احتجاج نے ہر دور میں معاشرے پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ احتجاج معاشرتی ارتقا میں مہمیز کا کام کرتے ہیں۔
احتجاج انسان پیدا ہونے کے فوری بعد شروع کردیتا ہے۔ بچہ رو کر احتجاج کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اسے خوراک ملتی ہے بڑا ہوکر بھی انسان احتجاج کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ مسائل اور ان کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔احتجاج جمہوریت کی ایک اہم روایت ہے جہاں ناانصافی اور دیگر انسانی پہلوؤں پر احتجاج کیا جاتا ہے وہیں یہ انفرادی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ فرد فرد سے احتجاج کرتا بھی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ احتجاج انفرادی اور اجتماعی دونوں حالات میں کیا جاتا ہے کہا جاسکتا ہے۔ وہ اقوام نہایت مہذب ہوتی ہیں جہاں مہذب انداز میں احتجاج کیا جاتا ہو۔ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ اقوام و ممالک میں احتجاج کا رنگ بھی الگ الگ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کیے جانے والے احتجاج تخلیقی پہلو لیے ہوتے ہیں اور احتجاج کرنے کے لیے نئے نئے انداز اپنائے جاتے ہیں ایک اور اہم فرق یہ بھی نظر آتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں کیے جانے والے احتجاج میں شریک لوگ خوش باش نظر آتے ہیں جب کہ ہمارے معاشرے میں ہونے والے احتجاج میں لوگ غم وغصے کی حالت میں ہوتے ہیں۔
احتجاج بنیادی طور پر صنعتی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں عوام الناس کی سوچ جمہوری رنگ لیے ہوتی ہے اور عوام سمجھتے ہیں کہ ان کا احتجاج بار آور ثابت ہوگا۔ زرعی معاشرے میں احتجاج کی روایت خاصی کمزور نظر آتی ہے۔ احتجاج فرد کے معاشرتی کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ماضی میں برصغیر پاک و ہند میں ہمیں احتجاج کی ایک ہی شکل نظر آتی ہے اور وہ جنگ ہے جو متحارب گروہوں، قبیلوں اور قوموں کے درمیان ہمیشہ جاری رہی۔ انگریز حکمرانوں نے معاشرے کو ترقی یافتہ بنایا تو احتجاج کی مختلف اشکال نے جنم لیا۔تحریک پاکستان کے لیے کی جانے والی جدوجہد احتجاج کا بھرپور رنگ لیے ہوئے تھی جسے انگریز انتظامیہ نے ہر صورت ختم کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جنگ عظیم میں انگریزوں کی شکست اور مقامی شدید احتجاج کے نتیجے میں انگریز حکومت ختم ہوئی اور بالآخر اسے اقتدار مقامی حکمرانوں کو منتقل کرنا پڑا۔
ہمارے معاشرے میں جہاں احتجاج معاشرتی ترجیحات طے کرتے ہیں وہیں احتجاج اس سے قطع نظر ہوکر کیا جاتا ہے کہ آیا اس مسئلے کا حل قانونی ہونا چاہیے یا نہیں۔حکومت کے خلاف عام طور پر کیا جانے والا احتجاج سیاسی اور سماجی پہلو لیے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں احتجاج کی مختلف اشکال ہیں جن میں ریلیاں، جلسے، لانگ مارچ، ٹرین مارچ، دھرنا، بھوک ہڑتال، خود سوزی ، عام ہڑتال، جیل بھرو تحریک بازوؤں پر سیاہ پٹیوں کا باندھنا اور ہوائی فائرنگ وغیرہ نمایاں ہیں۔ احتجاج کی دوسری اشکال بھی موجود ہیں جن میں خودکشی کا کیا جانا بھی احتجاج کی اہم ترین شکل ہے جو سیاسی اور سماجی بنیاد لیے ہوتی ہے۔ اس سے ہٹ کر سفاک اور درندہ صفت لوگوں کے ہاتھوں اپنی ہی بیوی بچوں کو غربت کے سبب قتل کردینا بھی احتجاج کی ہی ایک شکل ہے جوکہ معاشرے کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن چکی ہے۔
احتجاج معاشرتی غم و غصہ کم کرنے کا ایک جمہوری انداز ہے ہمارے معاشرے میں احتجاج کے نتیجے میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے آگ کا لگانا اور لوٹ مار غربت کے سبب ہوتی ہے تشدد کا پہلو احتجاج میں نمایاں نظر آتا ہے۔ ووٹ کا نہ دینا بھی احتجاج کی ہی ایک شکل ہے۔ ملک میں ووٹنگ کی شرح کا کم ہونا بطور احتجاج لیے جانا چاہیے۔ مختلف طبقات میں احتجاج کے بھی مختلف انداز سامنے آتے ہیں عام لوگوں کا احتجاج تند و شدید ہوتا ہے جب کہ این جی اوز کے تحت اور سول سوسائٹی کا احتجاج خاصا مہذب نظر آتا ہے۔ مہذب معاشروں میں بے زبان جانوروں کے مسائل پر بھی بھرپور احتجاج کیا جاتا ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں انسانوں کے ہی مسائل ہنوز حل طلب ہیں۔ احتجاج میں شریک افراد کی اکثریت تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ اور یہ شہروں میں زیادہ ہوتے ہیں ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا ہے کہ احتجاج کے نتیجے میں اگر معمولات زندگی متاثر نہ ہوں تو یہ احتجاج نہ ہوا جب کہ ترقی یافتہ معاشروں میں معمولات زندگی رواں دواں رہتے ہیں۔
احتجاج عموماً حکومت کے خلاف کیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ حکومت کس سے احتجاج کرے ابتر معیشت اور مالی حالت حکومت کی کارکردگی کو بھی متاثر کیے ہوئے ہے۔ بہرحال عوام الناس اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کے مسائل حکومت حل کرسکتی ہے۔ احتجاج کے لیے آگاہی ضروری ہے اور احتجاج آگاہی دینے کے لیے ہوتا ہے۔ انصاف پر مبنی معاشروں میں احتجاج مزید بہتری کے لیے کیا جاتا ہے۔ احتجاج اور ان کی اشکال قوم و معاشرے کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔
احتجاج کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہے اور یہ فرد سے لے کر حکومت تک کی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ جمہوری طرز حکومت میں ایوان کا مچھلی بازار بن جانا بھی دراصل احتجاج کی ایک شکل ہے اراکین پارلیمنٹ احتجاج کے لیے مختلف انداز اپناتے ہیں اور اظہار رائے کا اپنا حق خوب استعمال کرتے ہیں۔ اسپیکر کے ڈائس کے سامنے جمع ہوکر شور شرابہ کرنا بھی احتجاج کی ہی ایک شکل ہے آج کل مہذب ممالک میں احتجاج کا ایک نیا انداز سامنے آرہا ہے جس میں ناپسندیدہ اور مخالف مقرر کو تقریر کے موقع پر جوتا پھینک کر مارا جاتا ہے۔ احتجاج کا یہ انداز ابھی تک ترقی یافتہ ممالک تک محدود ہے اور ترقی پذیر ممالک ابھی تک اس کی زد میں نہیں آئے ہیں۔
احتجاج ایک جمہوری طرز عمل ہے اور اظہار رائے کی ایک صورت ہے احتجاج کے انداز سے ہم کسی بھی قوم کے مہذب ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کس طرح اور کس شکل میں سامنے لاتی ہے۔ کسی معاملے پر احتجاج نہ کرنا بھی احتجاج کی ہی ایک شکل ہے۔
عدلیہ سے انصاف طلبی بھی احتجاج کی ایک شکل ہے اس کے علاوہ پٹیشن داخل کرنا بھی احتجاج میں شامل ہے۔ مہذب معاشروں میں عدلیہ کو انتہائی احترام حاصل ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں جج صاحبان کی کردار کشی کی جاتی ہے وہ کس سے احتجاج کریں؟ عدلیہ کی توہین دراصل مہذب معاشرے کی توہین ہوتی ہے اور پورے معاشرے کو اس پر احتجاج کرنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا ہے کہ جن کا مسئلہ ہے انھیں ہی احتجاج کرنا چاہیے جب کہ مغربی سوچ اس کے برعکس ہے۔ احتجاج تعمیری اور مثبت ہونا چاہیے۔ ہمیں انسانی دکھ اور مصائب کے ٹھوس پہلوؤں پر احتجاج کرنا چاہیے۔