بیوروکریسی اور اظہارِ رائے کا حق
بیوروکریسی کا کام محض مجاز حکام کی پالیسیوں کی تکمیل کرنا رہ گیا ہے۔
گریڈ 21 کے ایک افسر جو آج کل کیبنٹ ڈویژن میں تعینات ہیں۔ انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا ہوا ہے جہاں مختلف بیوروکریٹس مختلف ایشوز پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔انھوں نے اس گروپ میں حکومت اور افغانستان میں طالبان حکومت کے بارے میں اظہار خیال کیا۔
"PTI Government and Taliban regime resemble as both are confused how to run the Government after assuming Power and both pin hopes on Aabpera."
(پی ٹی آئی کی حکومت اور طالبان کی حکومت میں کچھ مشابہت پائی جاتی ہیں۔ دونوں حکومتوں کو چلانے کے معاملہ میں کنفیوژ ہیں اور مدد کے لیے آب پارہ کی طرف دیکھتی ہیں۔) یہ ایک معصومانہ تبصرہ تھا جو معروضیت کے اصول کے تحت حقائق کے مطابق ہے ، مگر اس واٹس ایپ گروپ کے کسی رکن نے یہ واٹس ایپ نامعلوم افراد کو منتقل کیا اور بات وزیر اعظم عمران خان تک پہنچی۔
وزیر اعظم نے ایف آئی اے کو اس معاملے کی تحقیقات کے احکامات صادرکیے۔ چارج شیٹ میں لکھا گیا ہے کہ مذکورہ افسر نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ حکومتی قواعد و ضوابط کے تحت سرکاری ملازم کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پرکوئی رائے نہیں دے سکتے۔
پاکستان میں اس وقت 1973 کا آئین نافذ ہے۔ اس آئین میں انسانی حقوق کے باب کو تفصیل سے درج کیاگیا ہے۔ انسانی حقوق کے باب میں درج ہے کہ ہر شہری کو سوچنے کی آزادی ہے۔اسی طرح اس باب کے آرٹیکل 19 میں آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کے تحفظ کی آزادی دی گئی ہے۔ اس آئین کے تحت 18 سال سے زیادہ عمرکے نوجوان ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور ان کا نام انتخابی فہرستوں میں شامل ہوتا ہے۔
جب ہر فرد کو خواہ اس کا پیشہ کوئی بھی ہو ووٹ ڈالنے کی آزادی ہے تو محض ووٹ ڈالنے کی نہیں وہ کسی فرد کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوارکی حیثیت سے تجویز بھی کرسکتا ہے اور کسی تجویز کی تائید بھی کرسکتا ہے، اورکسی سرکاری ملازم کا تجویز کردہ امیدوار قومی اسمبلی کا رکن اور بعد میں وزیر اعظم اور وفاقی وزیر بننے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔
پاکستان نے 1948 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سول و پولیٹیکل رائٹس کے کنونشن کی مختلف شقوں کو پڑھیں تو ان بین الاقوامی چارٹر میں شہریوں کے سوچنے، ووٹ ڈالنے، انتخاب لڑنے، سیاسی جماعت بنانے اور کسی جماعت میں شامل ہونے کے حق کی توثیق کی گئی ہے۔ ملک میں ایک طرف تو 1973 کے آئین کے تحت انسانی حقوق کے تحفظ کی واضح یقین دہانی موجود ہے مگر پاکستان کے 72 برسوں میں ہونے والی سیاسی صورتحال کے جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی آئینی ریاست کے اوپر ایک اور بظاہر نظر نہ آنے والی ریاست قائم ہے۔
اس ریاست نے قیام پاکستان کے بعد سے ہی آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت پر قدغن لگانی شروع کیں۔ اس غیر جمہوری رویہ کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 11اگست 1947ء کو نئے ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تھا۔ اس ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے اسمبلی کے اجلاس کے دوسرے روز 11 اگست 1947 کو نئی ریاست کے خدوخال کی اپنی اساسی تقریر میں واضح نشاندہی کی تھی۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ چوہدری محمد علی جن کا تعلق برطانوی ہندکی بیوروکریسی سے تھا ،اور ساری عمر آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کی وزارت میں کام کیا تھا وہ طاقتور بیوروکریٹ بن گئے تھے اور نئی ریاست میں سیکریٹری جنرل کے عہدہ پر تعینات ہوئے۔
وہ بیرسٹر محمد علی جناح کے جدید ریاست کے آئیڈیا سے متفق نہیں تھے، ان کی ہدایت پر اخبارات کو پہلی پریس ایڈوائز بھیجی گئی۔ اس ایڈوائز میں اخبارات کے ایڈیٹرز کو پابند کیا گیا تھا کہ ملک کے بانی کی تقریر کے ریاست کو سیکولر قرار دینے سے متعلق پیراگراف شایع نہ کیا جائے۔ یہ ایڈوائز روزنامہ ڈان کے نیوز روم میں وصول ہوئی تو نیوز ایڈیٹر نے اپنے ایڈیٹر الطاف حسین کو آگاہ کیا۔
الطاف حسین کا شمار ملک کے سینئر ترین ایڈیٹروں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ مجید ملک کو بتایا کہ وہ کل صبح بانی پاکستان سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا واقعی ان کی ہدایت پر یہ پریس ایڈوائز جاری کی گئی ہے تو سینئر بیوروکریٹس نے فیصلہ کیا کہ ایڈوائز واپس لی جائے۔ بانی پاکستان کی یہ تقریر تو مکمل شایع ہوئی مگر اس رویہ نے نئی ریاست میں اظہارِ رائے اور آزادئ صحافت کو کچلنے کی روایت ڈال دی۔
انگریزوں کے طرزِ حکومت پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دور میں کسی ہندوستانی بیوروکریٹ کا کوئی دوسرا بیانیہ ہو ہی نہیں سکتا تھا ، اگر کوئی فرد سرکاری افسر بننے کے باوجود ہندوستان کی آزادی کی تحریک یا کسی اور تبدیلی کے بیانیہ سے منسلک ہوتا تھا تو وہ معتوب سمجھا جاتا تھا۔ کارل مارکس کے نظریات سے واقفیت ہونا خطرناک جرم سمجھا جاتا تھا۔
آزادی کے بعد بھی یہی پالیسی برقرار رہی۔ سرکاری افسروں کو حکومتی بیانیہ کے مطابق سوچنے اور اس پر عمل کرنے کا پابند کیا گیا۔ ترقی پسند ادب تخلیق کرنے والے سرکاری ملازمین مستقل زیرِ عتاب رہے، کچھ کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا جب کہ دوسری طرف بیوروکریسی کو اختیارات کے ناجائز استعمال، رشوت اور دولت کمانے اور غریبوں کے ساتھ حیانت آمیز سلوک کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیاتھا۔
یہی وجہ ہے کہ پہلے مشرقی پاکستان کی عوام میں بیوروکریسی کے خلاف نفرت پیدا ہوئی جس کا اظہار بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کے دوران ہوا ، اب یہی صورتحال بلوچستان میں ہے۔ بیوروکریسی بلوچستان کو نوآبادی سمجھتی ہے جس کی بناء پر وہاں کے عوام اسلام آباد کی بیوروکریسی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
بیوروکریسی کا کام محض مجاز حکام کی پالیسیوں کی تکمیل کرنا رہ گیا ہے۔ انھیں سوچنے اور اظہار کی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں کم ہوجاتی ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے، اگر کوئی افسر واٹس ایپ پر کوئی ریمارکس لکھتا ہے تو اس کو کسی صورت حکومت یا ملک دشمنی نہیں سمجھنا چاہیے۔
ان سرکاری ملازمین کی تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں غور و فکر اور آزادئ اظہار کا حق دیا جائے، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ 2021میں بھی موجودہ حکومت برطانوی ہند کی حکومت کی قائم کردہ روایات پر عمل کررہی ہے۔ شمیمی صاحب معتوب ہوئے تو صرف ایک فرد کا نقصان نہیں ہوگا بلکہ پوری بیوروکریسی میں سوچ و فکر کا رجحان ختم ہوجائے گا۔