پیپلزپارٹی اور وراثتی سیاست

پیپلزپارٹی خاص طور پر آصف علی زرداری کو سوچنا ہوگا کہ اُن کے کارکن اُن کی پارٹی سے بددل کیوں ہیں؟


علی احمد ڈھلوں December 01, 2021
[email protected]

ISLAMABAD: کسی سیاسی پارٹی کا جنم دن اُس کے کارکنوں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، خصوصاً اُس پارٹی کے ساتھ آپ کی دلی وابستگی ہو، جیسے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہماری دلی وابستگی رہی۔ یہ پارٹی ہمارے ساتھ جوان ہوئی ، عروج دیکھا اور اب ''بڑھاپے'' کی جانب گامزن ہے۔ 30نومبر کو پی پی پی کی 54واں یوم تاسیس منایا گیا۔

اس پارٹی کو کیسے عروج سے زوال آیا اور کیوں کر آیا اور چاروں صوبوں کی''زنجیر'' پیپلزپارٹی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صرف ایک صوبے تک محدود کیوں کر دیا گیا، اس پر تو بعد میں آتے ہیں پہلے اس پارٹی کی تاریخ پر طائرانہ سی نظر ڈالتے ہیں کہ

پیپلز پارٹی کا قیام1967میں عمل میں آیا۔ 1966 میں جب ذوالفقار علی بھٹو سیاسی اختلافات کی بنا پر صدر جنرل ایوب خان کی کابینہ سے مستعفیٰ ہوئے تبھی سے وہ ایک سیاسی جماعت کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔ اسی زمانے میں لاہور میں کچھ دانشور، جن میں اخبار نویس، اساتذہ، وکلا، ادیب اور سرکاری ملازم شامل تھے، ایک ہفتہ وار ادبی اجلاس میں ملک کے مسائل پر بحث کرکے ان مسائل کے ممکنہ حل کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ یہ اجلاس ڈاکٹر مبشر حسن کی گلبرگ لاہور میں رہائش گاہ میں منعقد ہوا کرتے تھے۔

ان افراد نے مسٹر بھٹو سے رابطہ قائم کیا اور مسٹر بھٹو اور جے اے رحیم کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 30 نومبر اور یکم دسمبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر اس نئی پارٹی کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا جس میں پارٹی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی تجویز کیا گیا اور پارٹی کے چار رہنما اصول منظور کیے گئے: (الف) اسلام ہمارا دین ہے۔ (ب)جمہوریت ہماری سیاست ہے۔(ج) سوشل ازم ہماری معیشت ہے۔ (د)طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے تایسی اجلاس میں جو افراد شریک ہوئے، ان میں رسول بخش تالپور' حنیف رامے' شیخ محمد رشید' حیات محمد خان شیرپاؤ' عبدالوحید کٹپر' معراج محمد خان' حق نواز گنڈا پور' ڈاکٹر مبشر حسن' جے اے رحیم' بیگم شاہین رامے' ملک حامد سرفراز' اسلم گورداسپوری' رفیق احمد باجوہ اور امان اللہ خان وغیرہ شامل تھے۔

اس اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین اور جے اے رحیم کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بہت جلد ملک کے غریب طبقے کی حمایت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ پارٹی کی اصل قوت مغربی پاکستان کا نوجوان طبقہ تھا جو ملک میں سوشل ازم اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کا خواہش مند تھا۔ یوں یہ پارٹی مغربی پاکستان کی مقبول ترین پارٹی بن گئی اور 1970 کے انتخابات میں اس نے اپنی یہ مقبولیت ثابت بھی کردی۔ لیکن 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے ماضی سے سبق حاصل کیے بغیر دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا،اور بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی۔

جنرل ضیاء الحق نے اپنے دس سالہ دور آمریت میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے علاوہ ہر اُس شخص پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا، جس نے کسی بھی شکل میں یا تو آمریت کی مزاحمت کی، یا کسی بھی سطح پر پیپلز پارٹی اور بھٹو شہید کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی۔راقم بھی انھی جیالوں میں سے ایک تھا جنھیں لاہور کے شاہی قلعہ میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں، اُس وقت آتش جواں تھا، اس لیے ہم بھی صف اول کے جیالوں میں شامل رہتے تھے۔

سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور آمریت کے خلاف خوب زہر اُگلتے تھے۔ الغرض یہ وہ سیاہ ترین دور تھا کہ بھٹو صاحب کو جسمانی طور پر ختم کرنے سمیت پیپلز پارٹی کا جسمانی و نظریاتی وجود ختم کرنے کی پوری کوششیں کی گئیں، لیکن 1988 کے انتخابات کے نتائج نے واضح کردیا کہ نہ تو لوگوں کے دلوں سے بھٹو کو نکالا جاسکا اور نہ پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت ختم کی جاسکی۔ دس سال میں آمرانہ طاقتوں کے ہاتھوں زیر عتاب رہنے والی پیپلز پارٹی 1988 کے انتخابات میں آمریت کے دودھ پر پلے ہوئے سیاسی پہلوانوں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے دوبارہ حکومت بنا نے میں کامیاب رہی۔ پیپلز پارٹی نے وفاق میں تیسری بار 1993 جب کہ چوتھی اور آخری بار 2008 میں حکومت بنائی۔

اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے کئی ایک اچھے کام بھی کیے جن میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک متفقہ آئین بنایا اور نافذ کیا، پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ پاکستان اسٹیل مل اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا شروع کیں۔لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔اور پھر 1971 کی جنگ کے بعد بھارت کی قید سے 90 ہزار فوجیوں کو رہا کروایا۔

بے زمین کسانوں میں زمینیں تقسیم کیں۔ بے نظیر بھٹو نے خواتین کے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، کاروبار کے لیے قرض فراہم کرنے، خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کرانے اور اعلیٰ عدلیہ میں خواتین ججز کا تقرر ممکن بنانے سمیت عورتوں کو ہر میدان میں آگے لانے کے لیے قابل ستائش اقدامات کیے۔لیکن آہستہ آہستہ اس سیاسی پارٹی کا گراف بھی نیچے جاتا گیااور ایک وقت آیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی بھٹو کی سیاسی پارٹی نہیں رہی۔ اس پارٹی کی سوچ اور نظریے میں بڑا بدلاؤ اُس وقت آیا جب محترمہ کی موجودگی اور اُن کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور اقتدار کے لیے تمام اختلافات بھلانے پر اتفاق کیا۔

اور پھر رہی سہی کسر محترمہ کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری صاحب کے فیصلوں نے نکال دی جیسے 2008 کا الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ اشتراک کر لیا، پھر ق لیگ کے ساتھ اتحاد کرلیا ، اس موقع پرست پالیسی نے پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا کردیا۔ اگر محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی کاکوئی سینئر ممبر پارٹی صدر یا چیئرمین بن جاتا تو پیپلزپارٹی بچ سکتی تھی۔کیوں کہ یہ درست حکمت عملی نہیں تھی کہ رضا ربانی، اعتزاز احسن، قمر الزمان کائرہ، فاروق ایچ نائیک، جہانگیر بدر جیسے سینئر سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے خاندانی سیاست کو آگے بڑھایا جاتا۔

اس لیے یہاں یہ کہنا بجا ہو گا کہ جس پارٹی نے بھی اپنی پارٹی کو وراثتی پارٹی بنایا ہے وہ زوال کا شکار ہو گئی، جیسے اے این پی، ن لیگ، جمعیت علمائے اسلام ف وغیرہ جیسی پارٹیاں سب کے سامنے ہیں ۔ پاکستان دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جہاں موروثی سیاست سب سے زیادہ گہری ہے۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کو کہیں اور سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

خیر یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اگر ہم دنیا پر نظر ڈالیں تو آپ کو ترقی یافتہ ممالک میں کہیں موروثی سیاست نظر نہیں آئے گی مثلاََ امریکی کانگریس میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد، انگلینڈ میں یہ تناسب 7فیصد، کینیڈا میں 3فیصد، فرانس میں یہ تناسب 6فیصد جب کہ ارد گرد کے ممالک میں دیکھیں تو بھارت کی لوک سبھا میں 28 فیصد،بنگلہ دیش میں 36فیصد اور پاکستان کی موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان جمہوری ملکوں کی فہرست میں 110ویں نمبر پر موجود ہے اور پیپلزپارٹی پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں میں سر فہرست دکھائی دیتی ہے۔ تبھی اس کا گراف ہر گزرتے دن ڈاؤن ہو رہا ہے اور سینئر ممبران کے اندر پارٹی کی اپنائیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔

لہٰذا پیپلزپارٹی خاص طور پر آصف علی زرداری کو سوچنا ہوگا کہ اُن کے کارکن اُن کی پارٹی سے بددل کیوں ہیں؟ اُن کی پارٹی کا پنجاب سے صفایا کیوں اور کیسے ہوگیا ہے؟اور اگر اسے دوبارہ اقتدار میں آنا ہے تواُس کے لیے اُسے کیا کرنا ہوگا؟ سب سے پہلے زرداری صاحب حالیہ ضمنی انتخاب کو دیکھ لیں کہ اُن کی پارٹی کہاں کھڑی ہے۔ انھیں ہر ضمنی انتخاب میں ضمانت ضبط ہونے کا طعنہ سننے کو ملتا ہے۔

لاہور کے حلقہ 133میں اتوار کو ضمنی انتخاب ہونے والا ہے جہاں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا ٹاکرا ہے، تحریک انصاف کا اُمیدوار ڈسکوالیفائی ہو چکا ہے لہٰذا پیپلزپارٹی کی قیادت کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ وہ پنجاب اور لاہور میں کتنی مقبول ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں