پردہ ہے پردہ
قہرخداوندی توچھپکلی کی طرح مچھر کی تاک میں بٹیھاتھا، اچانک پھٹ پڑا۔
علامہ بریانی عرف برڈفلواورقہرخداوندی چشم گل چشم عرف سوائن فلوکے درمیان بڑا شدید بلکہ ہائی فائی ٹاکرا ہوگیا،اگر ہم موجود نہ ہوتے تو بات بہت آگے تک پہنچ سکتی تھی۔
علامہ حسب معمول، حسب عادت اورحسب پیشہ زمانے پر حملہ آورتھے اور موجودہ بے راہرواوربرائی سے بھرپورمعاشرے پر برس رہے تھے کہ دیکھو بازاروں میں عورت کیا سے کیا بن گئی ہے، پردہ نہ حجاب ، شرم نہ حیا،کھلے عام پھرتی ہے، وہ بھی تقریباً بے لباس ہوکر۔کیایہ قرب قیامت کی نشانیاں نہیں۔
قہرخداوندی توچھپکلی کی طرح مچھر کی تاک میں بٹیھاتھا، اچانک پھٹ پڑا۔
خداسے ڈرو، اتنابڑا جھوٹ مت بولو۔عورت بیچاری بے پردہ کہاں ہے، وہ تو پہلے سے زیادہ باپردہ اورباحجاب ہے، ہاں چند عورتیں مجبوریوںسے باہر نکلتی ہیں لیکن یہ سراسر غلط ہے کہ بے لباس ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ آج کل مہنگائی کی وجہ سے میک اپ کرکے نکلتی ہے ۔
پھر علامہ کی ذات بے برکات کوٹارگٹ کرتے ہوئے بولا، اب اگر آپ کا''ایمان '' اتنا نازک ہے کہ عورت کی آوازسن کر یا قدموں کی آہٹ پاکر کرچی کرچی ہوجاتاہے، تصویر دیکھ کربھی چھوئی موئی ہوجاتاہے اورخالی لباس دیکھ کر بھی تڑخ تڑخ جاتاہے تو اس میں عورت کاکیاقصورہے، اپنے ایمان کا کچھ کیجیے جو کچے دھاگے، مٹی کے دیے اورموم بتی سے بھی زیادہ کمزورہے ۔
اس موقعے پرعلامہ کچھ بولنا چاہتے تھے لیکن قہرخداوندی نے ہاتھ اٹھا کر والیوم بڑھا کرکہا، بس تمہاری باری گزرچکی ہے، اب میری سنو۔یہ جوتم بازارمیں عورتیں دیکھتے ہو، اتنا زیادہ میک اپ چڑھائے ہوتی ہیں کہ اصل چہرہ چھپ جاتا ہے، اگرتم مجھے ایک بھی عورت ایسی دکھادو جو میک اپ کا پردہ ڈال کرنظر آتی ہوتو میں دو روپے نقدآپ کی نذرکروں گا،اس کے بعد قہرخداوندی نے دلائل وشواہد کے ڈھیرلگاتے ہوئے کہاکہ عورت اورخاص طورماڈرن عورت بے پردہ نہیںہے بلکہ سرسے پیروں بلکہ ناخنوں تک میک اپ پوش ہوتی ہے جو پردے کی جدید شکل ہے۔
قہرخداوندی نے چندواقعات بھی سنائے مثلاً ایک امریکی جوڑے نے شادی کی توسہاگ رات کوپتہ چلاکہ وہ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ میاں بیوی رہ چکے تھے لیکن اس وقت دونوںنے ایک دوسرے کوبغیر میک اپ کے دیکھا تھا۔ہمیں بھی اس کی تائید میں بولنا پڑاکیوں کہ ہمارے ساتھ بھی اسے واقعات ہوچکے تھے،جب ہم ریڈیومیں تھے تواچانک ہیڈکوارٹر سے حکم آگیاکہ کچھ خاص قسم کے گانے فوری طور پر ریکارڈ کرکے بجھوادو،اس زمانے میں ٹیلی فون عام نہیں تھا چنانچہ پروڈیوسر نے ہمیں گاڑی دیتے ہوئے کہا کہ فلاں گلوکارہ کو فوراً مطلع کردوکہ آجائے ۔گھر کا پتہ بھی بتادیا۔
ہم نے دروازے کی گھنٹی بجائی تواس کی ماں نے دروازہ کھولا اورہمیں نام سے بلا کر علیک سلیک کیا۔ ہم حیران تھے کہ ہم تواس کی ماں سے کبھی نہیں ملے تویہ ہمیں کیسے پہچان گئی البتہ بیٹی کو ریڈیومیں دیکھا تھا اوراس کے لیے اپنے دل کاایک گوشہ بھی مخصوص کیاہوا تھا اورجب بھی وہ ریڈیو آتی تھی ہم بہانے بہانے اس کے گرد پھیرتے اوردل ہی دل میں واری صدقے کرتے رہتے تھے لیکن اس کی ماں... دونوں کی شکلیں ہوبہو ایک دوسرے پر گئی تھیں، صرف عمر کافرق تھا۔ہم نے اس سے کہاکہ فلاں بیگم کہاں ہے، اس کے لیے ارجنٹ پیغام ہے۔
وہ مسکراتی ہوئی بولی، برق صاحب آپ اندرتو آئیں۔ ہم اندرگئے، بیٹھک میں بیٹھ گئے اورایک مرتبہ پھر فلاں بیگم کاپوچھا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔بولی، آپ مذاق کررہے ہیں شاید۔ میں تو آپ کے سامنے ہوں۔وہ بیٹی بھی خود تھی اور ا پنی بیٹی کی ماں بھی خود۔
اورواقعی جب دوگھنٹے بعد ریڈیو اسٹیشن آئی توماں کوگھرچھوڑکرآئی تھی اورخود ہی اپنی بیٹی بنی ہوئی تھی۔چنانچہ ہم نے قہرخداوندی کی تائید کرتے ہوئے علامہ کوسمجھایاکہ آپ دوردورسے دیکھ رہے ہیں، واقعی عورت بے پردہ نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ باپردہ ہوگئی ہے، صرف لباس بدل چکی ہے کیوں کہ دنیا میں عمرکم کرنے اورجلد کو ملبوس کرنے کے لیے بہت ساری ایجادات ہوچکی ہیں بلکہ اب توبیوٹی پارلروالے بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پارلر سے نکلنے والی کسی لڑکی کو ہرگزنہ چھیڑئیے،ہوسکتاہے کہ وہ آپ کی نانی یا دادی ہو۔