پیپلز پارٹی اور حیدرآباد شہر

سندھ میں ترقی کا انحصار سندھ میں آباد تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک میں مضمر ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan December 02, 2021
[email protected]

ISLAMABAD: حیدرآباد شہرمیں میڈیکل کالج کا قیام کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ میڈیکل کالج کے لیے تعمیر ہونے والی عمارت، ایس آئی یو ٹی کو دے دی جائے، اس فیصلے سے میڈیکل کالج کے قیام کی امید دم توڑ دے گی۔ حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ہندوستان کے بٹوارہ سے پہلے حیدرآباد میں ہندو اکثریت میں آباد تھے۔ قیام پاکستان کے بعد غیر مسلم آبادی کے وجود میں آنے کے بعد شہریوں کی اکثریت حیدرآباد چھوڑ گئی۔ بھارت کی ریاست راجستھان کے راستے پاکستان میں داخل ہونے والے مسلمان مہاجرین کی اکثریت نے حیدرآباد کو اپنا مسکن بنایا۔ سندھی مسلمانوں نے خوش دلی سے اپنے گھروں کے دروازے ان مہاجرین کے لیے کھول دیے۔

1960 میں جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں سندھی زبان کی تدریس پر پابندی عائد کردی گئی اور اردو بولنے والی اشرافیہ مغربی پاکستان کی بیوروکریسی سے طاقت حاصل کرنے لگی ، یوں سندھی اور اردو بولنے والے گروہوں میں تفریق بڑھی۔ جب سندھ یونیورسٹی کے طلبہ نے جام ساقی، مسعود نورانی اور ندیم اختر وغیرہ کی قیادت میں ون یونٹ کے خاتمہ کی تحریک شروع کی تو چند ترقی پسند اردو بولنے والے کارکنوں کے علاوہ باقی آبادی اس تحریک سے علیحدہ رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اردو بولنے والی برادری کے بعض رہنماؤں نے ون یونٹ کی حمایت کی۔ 1970کے عام انتخابات میں ایسی ہی صورتحال رہی۔

پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت میں سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دینے کا بل صوبائی اسمبلی میں پیش ہوا تو اردو بولنے والی برادری کے رہنماؤں کو اسلام خطرہ میں نظر آنے لگا ، یوں ایک میٹھی اور محبت بھری زبان کے خلاف احتجاج ہوا جس سے دونوں طبقوں میں خلیج بڑھ گئی، مگر پھر کچھ دنوں بعد حالات معمول پر آئے۔ حیدرآباد میں تمام لسانی اکائیوں کے افراد بھائی چارہ کے ساتھ زندگی گزارنے لگے۔ 1987میں نام نہاد قوم پرست رہنما کی قیادت میں حیدرآباد کے بازاروں میں اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔

1985 کے انتخابات میں مہاجر قومی موومنٹ کے امیدوار حیدرآباد سے کامیاب ہوئے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان اقتدار میں شراکت کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدہ کے نکات میں حیدرآباد شہر میں جنرل یونیورسٹی، میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج کے قیام کا معاہدہ ہوا۔ ایم کیو ایم قیادت کے زور دینے پر حیدرآباد کے کالجوں میں پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کا آغاز ہوا۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی، سندھ بلوچستان کے بیورو چیف اشرف خان جن کا آبائی شہر حیدرآباد ہے ، بتاتے ہیں کہ 1988 تک سندھ یونیورسٹی جام شورو میں ایک قوم پرست تحریک کا عملی طور پر قبضہ تھا اور اردو بولنے والے طلبہ کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل تھا۔ اس بناء پر حیدرآباد کے کالجوں میں پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کا آغاز ہوا مگر یہ تجربہ ناکام ہوا۔ ان کلاسوں میں حیدرآباد کے طلبہ نے داخلے نہیں لیے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

ورلڈ بینک کے ماہرین کی یہ ڈاکٹرائن آئی کہ ترقی کے جدید تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے والے ماہرین کی ضرورت ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا درجہ بلند کیا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن ایچ ای سی کے چیئرمین مقرر ہوئے۔

ملک میں جنرل یونیورسٹیوں، ٹیکنیکل یونیورسٹیوں اور میڈیکل یونیورسٹیوں کا قیام ہونے لگا۔ لیاقت میڈیکل کالج جام شورو کو سب سے پہلے یونیورسٹی کا درجہ ملا، مہران انجینئرنگ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ کے مختلف علاقوں میں یونیورسٹیوں کے قیام کا سلسلہ شروع کیا۔ اب تک سندھ کے مختلف شہروں میں پچیس کے قریب سرکاری یونیورسٹیاں قائم ہوچکی ہیں۔ ایم کیو ایم جب اس حکومت کی اتحادی تھی۔ دونوں جماعتوں نے حیدرآباد شہر میں جنرل یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کے قیام پر اتفاق کیا ۔

اس معاہدہ کے مطابق پیپلزپارٹی کی حکومت حیدرآباد میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے قیام کی پابند تھی مگر یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت پر سزا دی اور پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو نیا وزیر اعظم مقرر کیا۔ پرویز اشرف نے گورنمنٹ کالج کالی موری میں تعلیم حاصل کی تھی ، وہ اپنی درسگاہ کے جلسہ میں آئے اور اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کیا ، اس وقت پیر مظہر الحق سندھ کے وزیر تعلیم تھے۔مگر یہ اعلان بھی اخبارات کی فائلوں میں دب گیا۔

میاں نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو ایم کیو ایم مسلم لیگ کی اتحادی بنی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے حیدرآباد کے شہریوں کو یونیورسٹی کا تحفہ دینے کا اعلان کیا۔ اس وفاقی یونیورسٹی کے لیے زمین سندھ کی حکومت کو فراہم کرنی تھی۔

ایک سینئر صحافی جن کا تعلق تھرپارکر سے ہے نے بتایا کہ سندھ کی حکومت نے یونیورسٹی کے لیے زمین فراہم نہیں کی۔ جب ایم کیو ایم کے نمایندہ ڈاکٹر عشرت العباد سندھ کے گورنر تھے تو انھوں نے صدر آصف زرداری سے قربت حاصل کرلی تھی۔ عشرت العباد نے بھی حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کرنے کی کوشش کی ، مگر اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ حکومت سندھ نے 2017میں گورنمنٹ کالج کالی موری کو یونیورسٹی بنانے پر اتفاق کیا۔ اس یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلرکے تقررکا معاملہ ہنوز التواء کا شکار ہے۔

جب وزیر اعظم عمران خان حیدرآباد آئے تو انھوں نے بھی ایسا ہی وعدہ کیا۔ ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی شبیر قائم خانی نے قومی اسمبلی میں حیدرآباد انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنالوجی اینڈ مینیجمنٹ سائنس کے بل کا مسودہ کافی عرصہ بعد قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ میں جمع کرایا تھا مگر وفاقی حکومت نے توجہ نہ دی۔ اب حکومت کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بل کی قانونی منظوری کے لیے ایم کیو ایم کی ضرور ت پڑی تو وزیر اعظم نے یہ بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

پیپلز پارٹی نے دیگر 32 قوانین کی طرح اس قانون کی بھی مخالفت کی۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے معاہدہ 2008کے تحت حیدرآباد میں میڈیکل کالج کے قیام پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ برسوں گزرنے کے بعد یہ منصوبہ منظور ہوا۔ میڈیکل کالج کی تعمیر کے لیے 2012-2013 میں 1.394 بلین روپے کے منصوبہ کی منظوری دی گئی تھی۔ میڈیکل کالج کی عمارت کی تعمیر کا کام 75 فیصد مکمل ہوچکا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ یہ بات بھول گئے کہ میڈیکل کالج میں بھی ڈائیلیسز سینٹر قائم ہو سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت شاید اس بات کا ادراک نہیں کررہی ہے۔ ان کی حکومت کی امتیازی پالیسیوں سے سندھ میں نئے تضادات ابھر رہے ہیں جس کا فائدہ کوئی دوسری قوت کسی موقع پر اٹھائے گی۔ سندھ میں ترقی کا انحصار سندھ میں آباد تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک میں مضمر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔