یہ ڈائنوسار اپنی دم کو بطور ہتھیار استعمال کرتا تھا

اس ڈائنوسار کی دُم غیرمعمولی طور پر پھیلی ہوئی تھی جس کے کناروں پر سخت اُبھار موجود تھے


ویب ڈیسک December 02, 2021
اس ڈائنوسار کی دُم غیرمعمولی طور پر پھیلی ہوئی تھی جس کے کناروں پر سخت اُبھار موجود تھے۔ (تصاویر بحوالہ: نیچر)

لاہور: سائنسدانوں کی عالمی ٹیم نے ایک ایسے ڈائنوسار کی باقیات دریافت کی ہیں جو اپنی دُم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا تھا اور خود کو دشمنوں اور حملہ آوروں سے بچاتا تھا۔

اس ڈائنوسار کے رکازات (فوسلز) تقریباً 80 فیصد مکمل ہیں جو چلی کے انتہائی جنوبی علاقے سے 2018 میں دریافت ہوئے تھے۔ یہ علاقہ انٹارکٹیکا (براعظم قطب جنوبی) سے خاصا قریب ہے اور ''سب انٹارکٹک چلی'' کہلاتا ہے۔



مزید تفصیلات کے مطابق، یہ ''اینکلیوسار'' قسم کے ڈائنوساروں سے تعلق رکھتا ہے جن کی کھال کسی زرہ بکتر کی طرح مضبوط ہوتی تھی اور اس پر جگہ جگہ نوک دار ابھار ہوا کرتے تھے۔

نیا دریافت ہونے والا یہ ڈائنوسار جسامت میں دیگر اینکلیوسارس سے چھوٹا، یعنی صرف 6.5 فٹ لمبا تھا، اور 7 کروڑ 49 لاکھ سال سے 7 کروڑ 17 لاکھ سال قبل کے زمانے میں وہاں رہا کرتا تھا۔



ماہرین نے اسے ''اسٹیگوراس ایلنگیسن'' (Stegouros elengassen) کا سائنسی نام دیا ہے۔

اس سے پہلے اینکلیوسارس کے جتنے رکازات بھی ملے ہیں وہ 6 کروڑ 60 لاکھ سال سے 6 کروڑ 80 لاکھ سال تک قدیم ہیں؛ جن کے مقابلے میں یہ رکازات تقریباً 50 لاکھ سال زیادہ قدیم ہیں۔



اسٹیگوراس ایلنگیسن کی سب سے خاص بات اس کی دُم ہے جو غیرمعمولی طور پر پھیلی ہوئی تھی اور جس کے کناروں پر سخت اُبھار موجود تھے۔

[ytembed videoid="sbForZtH7H4"]

یہی ساخت دیکھتے ہوئے سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ اپنی دُم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے حملہ آور اور شکاری جانوروں سے اپنا دفاع کرتا تھا۔



اس عالمی ٹیم میں چلی کے علاوہ برازیل اور ارجنٹینا کے ماہرین بھی شامل تھے جبکہ یونیورسٹی آف چلی کے سرگیو سوتو اکونا اور الیگزینڈر ورگاس ان کی سربراہی کررہے تھے۔



اسٹیگوراس ایلنگیسن کی مکمل تفصیلات ریسرچ جرنل ''نیچر'' کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں