خدارا ملک ہم سب کا ہے
قانون کی حفاظت کرنا جتنی ایک وکیل کی ذمے داری ہوتی ہے اُتنی کسی کی نہیں ہوسکتی
ہر بار میرا دل نہیں مانتا کہ یہ کام کالے کوٹ پہننے والے کرسکتے ہیں، لیکن ہر بار یہی حقیقت ہوتی ہے کہ یہ وہ ہی کررہے ہیں۔ جی ہاں! اُمید کے عین مطابق وکلاء گردی کا ایک اور واقعہ آج ہمارے سامنے ہے، منڈی بہاوالدین کے سیشن جج کو وکلاء برادری نے ''کُٹ'' لگا کر اپنے ہی بینچ اور بار کی عزت کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔
اب اس واقعہ کوایک طرف رکھیں ! پھر ایک لمحہ کے لیے سوچیں کہ کیا یہ فعل قانون دانوں کو زیب دیتا ہے؟ یقینا نہیں دیتا لیکن اس سے زیادہ افسوس اُس وقت ہوتا ہے جب یہ وکلا حضرات الٹی سیدھی دلیلیں دے کر اُس فعل کا دفاع کرتے ہیں۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کے واقعات 2009 کے بعد ہی بڑھے ہیں۔ یعنی2009 کی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے لیے چلائی جانے والی وکلاء تحریک کے بعد ۔ کیوں کہ اس تحریک کے بعد ہی ''وکلا گردی'' کی اصطلاح زبان زد عام ہوئی۔ پنجاب میں گزشتہ دس برس کے دوران تشدد کرنے کے الزام میں سیکڑوں وکلا کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں۔
2009 سے 2021 تک وکلا حضرات نے پولیس، عدالتی عملے اورسول ایڈمنسٹریشن کے درجنوں افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا،الغرض حالات کی سنگینی کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ اب ماتحت عدلیہ کے ججز ان وکلاء سے ڈرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں جس جس نے بھی ''نظریہ ضرورت'' کے تحت کوئی جن بوتل سے نکالا، پھر اُسے واپس بوتل میں بند کرنے کی زحمت نہیں کی۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے افغان جنگ میں امریکا نے مجاہدین بنوائے، اور بعد میں اُن کا حل نکالے بغیر واپس چلا گیا۔ اسی طرح ہم نے فرقہ بازیوں کے مختلف جن بوتل سے نکالے، مگر انھیں واپس بوتل میں بند نہیں کیا ۔ پھر مولویوں کا جن بوتل سے نکالا گیا جس نے جب چاہا حکومتی رٹ کو چیلنج اورملک بند کردیا۔ ان جنوں کو نکالنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا، کہ انھوں نے اسے کیوں نکالا۔ میرے خیال میں اس میں سب سے زیادہ قصور اُن کا ہے جو حکمرانوں کو بناتے ہیں۔
نہ جانے وکلاء نے ماتحت عدالتوں کو کیا سمجھ رکھا ہے۔ بعض اوقات تو ماتحت عدالت کو معلوم ہوتا ہے کہ سامنے کھڑا شخص آنکھ میں دھول جھونک رہا ہے لیکن تاریخ دینے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ الغرض اندھیر مچاہے ، حکمران جوتیوں سمیت آنکھوں میں اتر جا تے ہیں۔
چند دن پہلے علی احمد کرد نے ایک جوشیلا خطاب کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ عدالتوں میں جلدی انصاف نہیں ملتا اور کیس سالوں چلتا رہتا ہے۔ لیکن کیا علی احمد کرد کو اپنی برادری سے بھی نہیں پوچھنا چاہیے کہ انھوں نے تاریخ پہ تاریخ کے کلچر کو ختم کرانے میں کیا کردار ادا کیا۔ اب تو باقاعدہ کسی وکیل کے پروفائل میں تعریف کے طور پر شامل کیا جاتا ہے کہ موصوف کیس کو لٹکانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ نظام کیسے ٹھیک ہو گا ، کون کرے گا؟ایسا شاید اس لیے ہے کہ حکومت کی رٹ اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ وہ کسی بھی ڈسٹرکٹ باریا تحصیل بار کے صدر کو بھی سزا نہیں دے سکتی ۔
ان کی تمام تر رٹ غریب لوگوں پر چلتی ہے، غریب لوگوں کے مکان گرائے جاتے ہیں، غریب لوگوں کے ٹاور گرائے جاتے ہیں، غریب لوگوں پر بجلی، گیس اور پٹرول کے تازیانے برسائے جاتے ہیں۔ کیا کوئی جج کسی بے قاعدگی پر کسی اے سی، ڈی سی کو سزا نہیں دے سکتا؟ طاقتور لوگوں کے کیسز دنوں میں سنے جاتے ہیں، دنوں میں فیصلے سنائے جاتے ہیں جب کہ غریبوں کے کیس دس دس، بیس بیس سال تک لٹکادیے جاتے ہیں ۔جس معاشرے میں سیشن جج خود کے لیے انصاف نہیں لے سکتا، وہ کسی سائل کو انصاف کیا فراہم کرے گا؟
لہٰذااس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اور مخصوص جتھوں کو قابو کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کو سخت فیصلے کرنے ہوگی اور قابل احترام قانون دانوں کو وکلاء کے بھیس میں چھپی کالی بھیڑوں کے خلاف سخت ایکشن لینا ہوگا ۔ قائداعظم خود وکیل تھے، اور اکثر کہا کرتے تھے کہ قانون کی حفاظت کرنا جتنی ایک وکیل کی ذمے داری ہوتی ہے اُتنی کسی کی نہیں ہوسکتی!