ارد گرد کو نگاہ میں رکھیں
پاکستان میں دہشت گردی بہت عروج پر رہی ہے یہ آج بھی موجود ہے اور ہمارے پر امن معاشرے کے لیے بے پناہ خطرہ ہے
پاکستان میں دہشت گردی بہت عروج پر رہی ہے یہ آج بھی موجود ہے اور ہمارے پر امن معاشرے کے لیے بے پناہ خطرہ ہے۔ اگر ہم اپنی ذمے واری کو محسوس کریں اور اپنے ارد گرد کو چھان بین کی نگاہ سے Scan کرتے رہیں تو یہ ایسے واقعات اگر مکمل ختم نہیں تو بہت حد تک کم ضرور ہو سکتے ہیں۔
افغانستان اوربھارتی خفیہ ایجنسیوں نے ایک پلان کے تحت پاکستان میں دہشت گردوں کو پروان چڑھانے میں مدد کی ۔ پاکستان میں موجود انتہا پسند ذہن کو سہولت کار کے لیے منتخب کیا ۔ افغان باشندے پاکستان میں بلا روک ٹوک داخل ہوجاتے ہیں، وہ سب سے پہلے سابقہ فاٹا میں آتے ہیں، وہاں سے کے پی کے شہروں میں اور پھر پورے ملک میں پھیل جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں انھیں آسانی سے سہولت کار مل جاتے ہیں۔دشمن کو جاننا اور پہچاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔اسی طرح دوست کو جاننا بھی اہم ہے۔دشمن کی پہچان کامیابی کی پہلی اور اہم سیڑھی ہے۔ اگر ہم دوست نما دشمن کو جانیں گے نہیں تو اس کے خلاف کامیابی کیسے حاصل کریں گے۔اگر اسے جانیں گے نہیں تو اس کو ہمارے خلاف کام کرنا بہت آسان ہو گا۔انگریزی کی بہت ہی مشہور کہاوت ہے Know thy Enemy میرے ذاتی علم میں ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں سے لے کر راولپنڈی، اسلام آباد تک ان کا جال پھیلا ہوا ہے۔
گو میری معلومات اب خاصی پرانی ہو چکی ہیں لیکن افغان ،بھارت گٹھ جوڑ تو بہت لمبا عرصہ چلا ہے اور پلان کے تحت ایسے بے شمار لوگوں کی ذہن سازی کرکے پاکستان میں Sabotage ایکٹووٹی کرنے کے لیے لانچ کیے گئے جنھوں نے ہماری کچھ مساجد پر ایک منظم انداز میں قبضہ کر کے اپنا گھناؤنا کھیل جاری رکھا ہوا ہے۔اب تو ان کی تعداد شاید بہت بڑھ گئی ہو گی۔
انھوں نے جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں بھی اپنے سلیپر سیل قائم کر لیے ہوں گے اور ہم بے خبر ہیں۔ہم کیوں ایسے ہیں۔ہم کیوں اپنے اردگرد رہنے والوں،بسنے والوں کی چھان بین نہیں کرتے۔ہم کیوں ہر بات حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ہمارے ذہن اور ہماری آنکھیں کیوں بند ہیں۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ہمارے پیارے نو نہالوں کو بے دردی سے شہید کیاگیا۔ اُن کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔
اور یہ سب ہمارے اندر رہنے والے ان عناصر کی وجہ سے ہوا جو ہمارے دشمنوں کے آلہء کار تھے۔اگر ہم اپنے ارد گرد دھیان رکھیں تو دشمن کو کبھی ہمارے اندر سے سہولت کار بآسانی نہیں مل سکتے۔دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔میں فرانس کی ایک مثال سے اپنی بات کو مزید واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔فرانس میں ہر پچاس گھروں کا ایک کلسٹر یا حلقہ بنا ہوتا ہے۔
پچاس گھرانے اپنے اندر سے ایک فرد کو نامزد کرتے ہیںاور اس نامزدگی کی اطلاع پولیس کو دے دی جاتی ہے۔پچاسویں گھر کے اس نامزد فرد کی ذمے داری ہوتی ہے کہ اس کے اپنے گھر اور باقی 49گھروں کی تمام معلومات وہ جمع کرتا ہے۔ان پچاس گھروں میں ہر آنے جانے والے کی اطلاع اس فرد کے پاس ہوتی ہے۔
49گھرانے ایک طے شدہ رقم اکٹھی کر کے ہر مہینے اُس فرد کو معاوضے کے طور پر ادا کرتے ہیں۔یوں وہ فکرِ معاش سے آزاد ہو کر ان گھروں کا رکھوالا بن جاتا ہے۔ انتظامیہ بھی ان گھروں کے معاملے میں اسی فرد سے رجوع کرتی ہے۔ بجلی، گیس، ٹیلی فون غرضیکہ ہر بنیادی ضرورت کا یہ شخص دھیان رکھتا ہے۔اس کو ایک معقول رقم معاوضے میں مل جاتی ہے اور آبادی ہر جھنجھٹ سے آزاد ہو جاتی ہے۔حلقے کی ساری معلومات اس شخص کے پاس ہوتی ہیں اور یہ تمام معلومات بوقتِ ضرورت پولیس کے ساتھ شیئر کرنے کا پابند ہوتا ہے۔آبادی کی تمام نقل و حرکت پر اس نمایندہ فرد کی نگاہ ہوتی ہے۔
چونکہ اس ساری کارروائی کے لیے کلسٹر کے 49گھرانے اسے ادائیگی کرتے ہیں اس لیے یہ کسی حکومتی یا بلدیاتی ادارے پر بوجھ بھی نہیں ہوتا اور 49گھروں میں بٹ کر یہ معمولی سی رقم بنتی ہے جو کسی ایک گھرانے پر بوجھ نہیں ہوتی۔
ہمارا حال تو یہ ہے کہ ساتھ جڑے ہوئے گھر میں کیا ہو رہا ہے اس کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔ہم ذمے واری کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرتے۔ہر ذمے واری حکومت، انتظامیہ اور پولیس پر ڈال دیتے ہیں۔ہمارے ادارے جیسے ہیں وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ہمارے اداروں کے اندر وہ صلاحیت اور کارندوں کے اندر وہ امنگ ہی نہیں کہ وہ اپنے اقدامات کے ذریعے کوئی ٹھوس پیش رفت کر سکیں۔ہمارے پولیس اسٹیشنوں پر عزت دار جاتے ہوئے گھبراتا ہے۔ایف آئی آر کروانا بہت مشکل ہے۔ادھر ہم ہیںکہ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے آنکھیں بند کر لینا قرینِ مصلحت سمجھتے ہیں۔
اگر ہم نے اپنا کوئی مکان یا احاطہ کرائے پر چڑھانا ہو تو تو بالکل بھی احتیاط اور چھان بین نہیں کرتے۔جو بھی ہمیں چند ٹکے زیادہ دینے پر آمادہ ہو ہم لالچ میں آ کر مکان یا احاطہ اسی کو کرائے پر دے دیتے ہیں۔زمین بیچتے ہوئے بھی کوئی احتیاط روا نہیں رکھی جاتی۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنی ذمے واری نبھائیں اور پوری طرح تسلی کر کے مکان یا احاطہ کسی کے حوالے کریں۔حوالے کرنے کے بعد بھی ہمیں نگاہ رکھنی چاہیے اور گاہے بگاہے معلومات لیتی رہنی چاہیے کہ ہمارے مکان میں کیسے افراد بس رہے ہیں اور وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث تو نہیں۔
بعض مساجد اور درسگاہیں ایسے عناصر کے کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بنتی ہیں۔ اس لیے کسی بھی فرد کو اپنے محلے کی مسجد کا امام مقرر کرتے ہوئے پوری تسلی کر لینی چاہیے۔ہمارے ہاں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ مطلوبہ رقم لگانے سے بہت جلد بن جاتا ہے اس لیے صرف شناختی کارڈ دیکھنے یا اس کی کاپی رکھنے پر اکتفا ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔
امام یا خطیب صرف اسی شخص کو مقرر کریں جس کے خاندان کو آپ جانتے ہوں۔آپ اگر اپنے اردگرد مساجد کی چھان بین کریں تو ایسے بے شمار امام حضرات مل جائیں گے جو مقامی نہیں ہوں گے۔ایسے امام حضرات،مساجد کے خدمت گاروں، کرایہ داروں اور محلے میں آمد و رفت رکھنے والوں پر نگاہ رکھنے کا کوئی نظام وجود میں لائیں۔ ہر محلے کا یہ فرض ہے کہ ایسا نظام ضرور وضع کریں۔اپنے ارد گرد پر دھیان دیں۔اس سے دہشت گردی ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ان شاء اﷲ۔