عثمان دموہی کا شعری مجموعہ ’’دیوان عام‘‘ پر ایک نظر
علم و ادب کے حوالے سے جناب عثمان دموہی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے
LONDON:
علم و ادب کے حوالے سے جناب عثمان دموہی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، انھوں نے بحیثیت نثر نگار اعلیٰ درجے کا کام کیا ہے، تخلیقی اور تعمیری امور کے علاوہ وہ کئی ادبی انجمنوں اور مختلف جرائد میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور اب بھی فعال ہیں، گلستان ادب کے وہ جنرل سیکریٹری، ڈپٹی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ''عصمت'' سابق میگزین ایڈیٹر روزنامہ الشرق کراچی اس کے علاوہ رکن شوریٰ ہمدرد قائد اعظم رائٹرز گلڈز اور آرٹس کونسل آف پاکستان کا ممبر ہونے کا بھی انھیں اعزاز حاصل ہے۔
عرصہ دراز سے وہ مختلف اخبارات میں قلم کا جادو جگا رہے ہیں، پاکستان کے موقر اور کثیرالاشاعت اخبار روزنامہ ''ایکسپریس'' میں عرصہ دراز سے باقاعدگی کے ساتھ ''آواز وطن'' کے عنوان سے کالم لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کی خوبی یہ ہے کہ وہ معاشرتی و سیاسی حقائق اور سماجی ناانصافیوں کا پردہ چاک کرتی ہیں وہ سچے اور کھرے لکھاری ہیں، اسی لیے ان کے کالموں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
عثمان صاحب کی کئی کتابیں اشاعت کے مرحلے سے گزر چکی ہیں ناقدین و قارئین نے انھیں داد و تحسین سے نوازا ہے ان کی پہلی کتاب بعنوان ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' اس کتاب میں کراچی کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی گئی ہیں اسی کتاب کا ترجمہ انھوں نے Karachi in the Mirror of History ، ''بھوپال کی کہانی''، یہ کتاب بھوپال کی تاریخ اور اہم تاریخی عمارات اور واقعات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ادبی تقریبات میں، میں نے انھیں بہت کم شاعری کو نذر حاضرین کرتے دیکھا ہے لیکن اس وقت تو مجھ پر خوشگوار حیرت طاری ہوئی جب انھوں نے شعری مجموعہ ''دیوان عام'' مجھے مرحمت فرمایا۔
مجموعے کی ابتدا روایتی انداز میں حمدیہ اور نعتیہ کلام سے ہوئی ہے انھوں نے اللہ رب العزت کی کبریائی اور عظمت کو شاعرانہ طرز میں اس طرح ڈھالا ہے کہ عبد اور معبود کے مضبوط ترین رشتے کی عکاسی موثر اور دلفریب انداز میں ہوئی ہے۔ شاعر نے اللہ کے محبوب حضرت محمدؐ کی محبت میں ڈوب کر شعر و سخن کے مہکتے ہوئے پھول کھلائے ہیں۔ رسول پاکؐ کی سیرت پاک اور معجزات کو چمکتے دمکتے الفاظ میں سمو دیا ہے۔ ایک مجموعے میں اٹھارہ نعتوں کا شامل ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عثمان دموہی ایک سچے عاشق رسولؐ ہیں، انھوں نے حضرت محمدؐ سے بے مثال محبت اور عقیدت کے چراغوں کو اس طرح روشن کیا ہے کہ قاری کے لیے یہ پرنور منظر ایمان کی تازگی اور روح کی بالیدگی کا سبب بنتا ہے۔ چند شعر نمونے کے طور پر۔
ہیں نام بڑے اور بھی دنیا میں بہت سے
ہے بعد خدا نام بڑا نام محمدؐ
صرف شجر و ہجر پر ہی نہیں نام محمدؐ
ہے عرشِ معلیٰ پہ لکھا نامِ محمدؐ
ایک اور نعت کا مطلع ملاحظہ فرمائیے۔ اس شعر میں حضرت محمد مجتبیٰ، شفیع المذنبین، رحمت اللعالمین ﷺ کے مرتبے اور شان و رفعت کو کس قدر موثر انداز میں بیان کیا ہے۔
سارے نبیوں کے سردار ہیں مصطفیٰؐ
نوح و موسیٰ کہاں اور کہاں مصطفیٰؐ
عثمان کی شاعری سہل ممتنع کی شاعری ہے انھوں نے ہر موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے اور مدلل انداز فکر سے قلم کو جنبش دی ہے۔ محب وطن ہونے کے ناتے اپنے ملک کے مسائل پر تو روشنی ڈالی ہی ہے اس کے ساتھ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور غیر منصفانہ رویے کو بھی بے نقاب کیا ہے ان کی ایک نظم ہے عنوان ہے ''1973 کی عرب اسرائیل جنگ سے متاثر ہو کر'' مذکورہ نظم میں یہ احساس نمایاں ہے۔
حدیث رسولؐ کی روشنی میں کہ مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے اگر جسم کے کسی عضو میں تکلیف ہوگی تو پورا جسم اس اذیت کو محسوس کرے گا۔ نظم کی روح اخوت، محبت کے جذبے سے سرشار ہے۔ جس وقت عثمان دموہی نے یہ نظم لکھی ہوگی انھیں اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ عرب ریاستیں اسرائیل کو ان حالات میں تسلیم کرلیں گی جب اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر میزائل داغ رہا ہوگا۔
اور سعودی عرب کے رویوں میں اس قدر لچک آجائے گی کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ اس پر اسلامی ملکوں کا دباؤ ہے۔ ورنہ تو۔۔۔۔ آپ سمجھ سکتے ہیں۔ اسی نظم سے چند اشعار:
مصر کے مجاہدو' اے شام کے دلاورو
بڑھے چلو' بڑھے چلو' بہادروں بہادروں
عرب کی سرزمین کا خون سے دفاع کرو
تم پہ جو گزر گئی اس کا نہ گلا کرو
یہودیت کی گند سے اپنا گھر صفا کرو
یہ وقت امتحاں ہے' تم اپنا حق ادا کرو
مصر کے مجاہدو' اے شام کے دلاورو
بڑھے چلو' بڑھے چلو' بہادروں بہادروں
قاری جناب عثمان دموہی کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے کہ وطن سے محبت اور دین حق کی روشنی سے شاعر کا سینہ منور ہے۔ ان کا دیوان فکر و جمال کی بلندی اور اسلوب بیان کی دلکشی کے باعث ''دیوان عام'' سے ''دیوان خاص'' میں بدل گیا ہے۔
نظم ''چودہ اگست'' ایک ایسی نظم ہے جس میں آزادی کی خوشی کا جشن لفظوں کی قندیل کو روشن کرکے منایا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
چودہ اگست کو آزادی کا ایسا سورج ابھرا
دور ہوا گھنگھور اندھیرا' رنگ فضا کا نکھرا
پیارے نبیؐ کا ایک مجاہد خوش خبری یہ لایا
دین محمدؐ کی احیا کا ضامن بن کر چھایا
روتا ہوا ہر چہرہ اس دن خود ہی مسکایا
عثمان دموہی کی تخلیق کردہ موضوعاتی نظمیں قاری کے لیے معلومات کے در وا کرتی ہیں اور ایک ایسا تاثر پیدا کرتی ہیں جو علم کی پیاس بجھانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسی ہی نظموں میں ''مسلمانوں سنو'' بے حسی، اسلامی نظام، محمد کا سپاہی، ہمارا وطن، قائد اعظم، ماں، شاعر مشرق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، پروفیسر سحر انصاری، جلیس سلاسل کی کتاب ٹیبل ٹاک کے اجرا کے موقع پر۔جناب عثمان دموہی نے سنجیدہ شاعری کے ساتھ ایسی شاعری بھی تخلیق کی ہے جس کا خمیر مزاح کی چاشنی سے اٹھایا ہے۔
گویا انھیں ہر طرح کے جذبات کو شاعری میں سمونے کا ملکہ حاصل ہے۔ ملاحظہ فرمائیے عنوان ہے ''دولہا''۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کی داستان رقم کی ہے جو اپنی شریک سفر کے ساتھ نئے سفر پر گامزن ہوتا ہے لیکن ابھی انھوں نے ایک ایسی شاہراہ پر قدم رکھا تھا جو ہموار تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ غیر متوازن اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار اسی طرح ہوگئی، جس طرح زندگیاں ہو جاتی ہیں شاعر محترم کی ہی زبانی سنتے ہیں:
زندگی کیا سے کیا ہو گئی
بعد شادی کے ٹھاہ ہو گئی
محفل دوستاں اب کہاں
بھول بیٹھے ہیں سارا جہاں
میری کچھ گھر میں عزت نہیں
ان سے الجھوں یہ ہمت نہیں
دال دلیے کی اب فکر ہے
ان کے خرچوں کا کیا ذکر ہے
ان پہ غصہ جو آیا کبھی
بولیں بھیوں کو لائی ابھی
شاعر نے حالات زمانہ کی تلخیوں کا نقشہ موثر انداز میں عکس بند کیا ہے اور گرانی کی تباہ کاریوں کا رونا اس طرح رویا ہے کہ موجودہ حکومت بھی ان کے قلم زد میں آگئی ہے۔
الفت کا اب ہر بول بھی اب جور لگے ہے
اچھا بھلا انسان بھی اب چور لگے ہے