چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ 7 اپریل کو ریٹائر ہونگے پنشن نہیں ملے گی

ملکی عدالتی تاریخ میںپہلی مرتبہ ایساہو گاکہ ہائیکورٹ کاچیف جسٹس ہونے کے باوجودکوئی شخص بطورجج پنشن لینے کاحقدار نہ ہو.


Ghulam Nabi Yousufzai February 09, 2014
جسٹس فصیح ستمبر 2009 کو پشاورہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج بنے اور31جنوری کوچیف جسٹس پشاورہائیکورٹ حلف اٹھایا۔ فوٹو؛ فائل

چیف جسٹس پشاوہائیکورٹ جسٹس میاں فصیح الملک 7 اپریل کو ریٹائر ہوجائیں گے لیکن انھیں جج کی پنشن نہیں ملے گی۔

ملک کی عدالتی تاریخ میںپہلی مرتبہ ایساہو گاکہ ہائیکورٹ کاچیف جسٹس ہونے کے باوجودکوئی شخص بطورجج پنشن لینے کاحقدار نہ ہو۔ قانون کے مطابق 5سال تک اعلٰی عدلیہ کاجج رہنے والا شخص ہی پنشن لینے کا حقدار ہوتاہے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس میاںفصیح الملک کابطور جج ہائیکورٹ میں مجموعی دورانیہ 4سال 7ماہ بنتاہے۔ جسٹس میاںفصیح الملک 7ستمبر 2009 کو پشاورہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقررہوئے اور 7 ستمبر 2011 کوانھیں مستقل کیاگیا۔ جوڈیشل کمیشن نے جب چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ جسٹس دوست محمدخان کوسپریم کورٹ کاجج بنانے کی سفارش کی توپشاورہائیکورٹ کے سینئرترین جج ہونے کے ناتے جسٹس میاں فصیح الملک کوہائیکورٹ کاچیف جسٹس بنانے کی بھی سفارش کی گئی۔ انھوںنے اس سال 31جنوری کوچیف جسٹس پشاورہائیکورٹ حلف اٹھایااور 2مہینے 8دن چیف جسٹس رہنے کے بعد 7اپریل کوریٹائر ہوجائیںگے۔

جسٹس میاں فصیح الملک 8اپریل1952 کو ضلع چارسدہ کاکا خیل میں پیدا ہوئے۔ فاضل چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ 5سال بطور ہائیکورٹ کے جج تجربہ رکھنے کی آئینی قدغن کے باعث سپریم کورٹ کے جج بھی نہیںبن سکتے کیونکہ اس سال 11اپریل ہی کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس خلجی عارف حسین ریٹائر ہوںگے اوران کی خالی نشست پرکرنے کے لیے چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ یاسندھ ہائیکورٹ سے جج لانا پڑے گا۔ پی سی اوکے اجراکے بعدسابق صدر پرویزمشرف نے ججوںکو نوازنے کے لیے اس قانون میںترمیم کی تھی۔ ترمیم شدہ قانون کے مطابق ہروہ شخص جوایک دن بھی اعلٰی عدلیہ کاجج رہاہو، پنشن لینے کاحقدار ٹھہرایاگیا تھالیکن سپریم کورٹ کے ایک لارجربینچ نے گزشتہ سال اس ترمیم کو غیرقانونی قراردے کر 5سال کی شرط کوبحال کردیاتھا۔ ترمیمی قانون سے 100کے قریب سابق ججوںنے مالی فائدہ اٹھایااور ان میںسے ہرایک جج نے 4سال میںقومی خزانے سے فی کس ڈھائی کروڑروپے سے زائد کی پنشن وصول کی۔ فائدہ اٹھانے والے ان سابق ججوںنے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلیںبھی دائرکر رکھی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں