پانڈے قلعی کرالو
قلعی گروں کی زندگی بہت ہی المناک تھی ان کے لیے گھریلو اخراجات پورے کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔
LONDON:
پانڈے قلعی کرالو، پرانے نئے بنالو۔ یہ صدا گئے وقتوں میں ہر گلی محلے میں گونجتی تھی۔ وہ برتن جو چولہے کی کالک کے باعث کالے ہوا کرتے تھے۔ ان کو قلعی کروا کے ان میں چمک پیدا کی جاتی تھی اس طرح ان برتنوں کی زندگی بڑھوائی جاتی تھی۔ اس کام کے ماہر کاری گر کو قلعی گر کہا جاتا تھا جو سائیکلوں پر گلی، محلوں میں گھوما کرتے تھے اور لوگوں کو اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے یہی صدا لگاتے تھے، پانڈے قلعی کرالو، برتن نئے کرالو۔ اور لوگ بھی اپنی ضرورت کے تحت ان پھیری والوں کا بے صبری سے انتظار کیا کرتے تھے۔
قلعی، پیتل اور تانبے کے زنگ آلود برتنوں میں نئی روح پھونک کر انھیں پھر سے نیا بنا دیتی تھی۔ قلعی کے بعد برتن میں پیدا ہونے والی چمک اسے نئے سے بھی زیادہ دیدہ زیب بنا دیتی تھی۔ نئی نسل کے ذہنوں میں یقینا یہ سوال ابھرتا ہوگا کہ برتنوں کو قلعی کیسے کیا جاتا تھا؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جیسے دھوبی کپڑے دھوتا ہے اسی طرح قعلی گر برتن کو دھوکر نیا بنا دیتے تھے۔ سب سے پہلے قلعی گر برتن کو نمک،گندھگ اور کاسٹک جیسے مختلف تیزابوں کی مدد سے مانجھتے تھے،کالک اور زنگ کو صاف کرنے کے بعد نوشادر کے ساتھ برتن پر قلعی لگائی جاتی تھی جو برتن کو چمکا کر بالکل نیا بنا دیتی تھی۔ اس عمل کے لیے ایک چھوٹی سی بھٹی لگائی جاتی تھی جس سے دھاتوں اور پانی کو گرم کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ کام کے دوران مختلف تیزابوں کے استعمال کی وجہ سے اس شعبہ سے وابستہ افراد میں سانس کی بیماری عام پائی جاتی تھی اور برتن قلعی کرتے وقت اس سے نکلنے والی بو سے اردگرد کے لوگ بھی بھاگ جاتے تھے۔
لیکن قلعی گر اور کیا کرتے؟ یہی کام ان کی روٹی روزی کا ذریعہ تھا اس لیے نا چاہتے ہوئے بھی قلعی گر کو ہر وقت مختلف تیزابوں کی ذد میں رہنا ہوتا تھا۔ ایک سابق قلعی گر کے مطابق قلعی انسانی صحت کے لیے بھی بہت مفید ہوا کرتا تھا، جسمانی کمزوری کی ایک بڑی وجہ قلعی کے استعمال کو ترک کرنا بھی ہے، قلعی شدہ برتنوں میں کھانا کھانے والے لوگوں کی صحت اچھی ہوتی تھی، قلعی جنسی، جسمانی کمزوری، ہر وقت تھکن،کمر کے درد جیس ے امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے نہایت مفید تھا۔2010 میں قلعی 4 سو روپے کلو تھی، 2013 میں 35 سو روپے فی کلو تک پہنچ چکی تھی۔ کوئلہ بھی 2013 میں 50 سے 60 روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس کے باجود ایک گلاس قلعی کرکے گاہک سے 30 روپے طلب کیا جاتا تھا اس پر بھی گاہک ناگواری کا اظہار کرتے تھے، جب قلعی اور کوئلہ سستا ہوا کرتے تھے تو قلعی گر گاہک سے ایک گلاس کو قلعی کرنے کے 10روپے لیتے تھے۔ لوگوں کی طرف سے پرانے برتنوں کو قلعی نہ کروانے اور پیتل کے برتنوں کے استعمال میں کمی کی ایک بہت بڑی وجہ مہنگائی بھی ہے۔
اول تو گاہک بہت کم ہو چکے تھے اگر آتے بھی تھے تو ان میں سے بھی بیشتر معاوضہ سن کر بھاگ جاتے تھے۔ تانبے اور پیتل کے برتنوں کے دور میں ایک قلعی گر یومیہ ایک ہزار روپے تک دیہاڑی لگا لیتا تھا لیکن 2013 میں یہ آمدنی کم ہوتے ہوئے ڈیڑھ سو روپے روزانہ تک بھی بہ مشکل پہنچ پاتی تھی جس وجہ سے ایک قلعی گر کے لیے گھریلو اخراجات پورے کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ دور جدید میں قلعی کروانے کا عمل تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ پرانے برتن کو نئے بنانے کی یہ ترکیب آج ختم ہوتی جا رہی ہے کہ اب نہ وہ چولہے ہیں اور نہ وہ برتن۔ آج کا دور ڈسپوزل کا ہے۔ جس برتن میں کھانا کھانے کے بعد اس برتن کو پھینکنے کا زمانہ ہے۔ یعنی خریدو، استعمال کرو اور پھینک دو۔ کا رجحان بہت زیادہ فروغ پا چکا ہے۔ لوگوں کے گھروں پیتل اور تانبے کے برتن ختم ہو گئے ہیں۔ اب صرف سلور کے برتن کو ترجیح دی جاتی ہے اس روش سے قلعی کروانے کا کام ختم ہوگیا ہے۔
ہرچند کہ قلعی گر پیتل اور تانبے کے گندے برتنوں میں نئی روح پھونک کر انھیں پھر سے نیا بنا دیتی۔ قلعی کے بعد برتن میں پیدا ہونے والی چمک اسے نئے سے بھی زیادہ دیدہ زیب بنا دیتی لیکن اس قلعی کو کرنے والے ہاتھ بعض اوقات اس قلعی گر کے ہوتے تھے جو لوگوں کے گندے برتنوں کو تو ضرور صاف کرلیا کرتے لیکن ان کی اپنی زندگی پر لگنے والے غربت اور مجبوریوں کے داغ اور دھبوں کو وہ کسی طور پر بھی صاف نہیں کر پاتے۔ ہر ایک قلعی گر کی زندگی کس طرح کی اذیت کا شکار رہی ہے اس کو جاننے کے لیے کسی نے زحمت نہیں کی۔ قلعی گروں کی زندگی کی داستان بہت ہی غمناک رہی ہے۔60،70 خزائیں دیکھنے والے قلعی گروں نے کبھی بہاریں نہیں دیکھیں۔ قلعی گروں کے کم سن بیٹے اور بیٹیاں جنھیں اسکول پڑھنا چاہیے تھا وہ اپنے قلعی گر والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے مزدوری کیا کرتے تھے ان کے گھریلو حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ بے حد شوق کے باجود وہ ایک جماعت نہیں پڑھ پاتے اس لیے ان پڑھ ہی رہے۔ قلعی گر کے بچے بہت چھوٹی عمر میں گھر کا سربراہ بن جاتے تھے۔
قلعی گروں کی زندگی بہت ہی المناک تھی ان کے لیے گھریلو اخراجات پورے کرنا ناممکن ہوگیا تھا روزبہ روز ان کی آمدن میں کمی اور مہنگائی میں زیادتی کے سبب وہ اپنے کم عمر بچوں کو بھی کام پر لگانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ قلعی گر دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ کسی کی اولاد کو قلعی گر نہ بنائے۔ قلعی گروں کے گھروں میں گوشت صرف بڑی عید پر پکتا تھا۔ اپنے پہننے کے لیے نئے کپڑے بنوانا ان کی دسترس میں نہیں تھا۔ سالوں بیت جاتے تھے ایک ہی جوڑا پہنے ہوئے ان کپڑوں پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوتے تھے۔ غربت کی وجہ سے قلعی گر دکان کرایہ پر نہیں لے سکتے تھے اسی لیے وہ سڑک کنارے بیٹھا کرتے تھے یا پھر سائیکل پر پھیری لگا لیا کرتے تھے۔ ہر انسان کی طرح قلعی گروں نے بھی زندگی میں بہت سے خواب دیکھے جن کی تعبیر کے لیے انھوں نے بہت سے دھکے کھائے لیکن وہ کبھی پورے نہ ہوسکے۔اگرچہ دور جدید میں قلعی کروانے کا عمل ختم ہوگیا ہے لیکن ہمارے ناکارہ اور فرسودہ خیالات کو آج بھی قلعی کرنے کی اشد ضرورت ہے جو جعلی کاموں کی قلعی کھلنے میں دیر بھی نہیں لگتی۔ ہمارے اذہان زنگ آلود ہوچکے ہیں اور ہم اپنے فرسودہ خیالات کو قلعی کروانے سے کترا رہے ہیں۔۔۔۔ایسا کیوں؟