خیالات کا جنم کیسے ممکن ہے
سقراط کہتا تھا ’’میں تو بس ایک ہی بات جانتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔
LONDON:
سقراط کہتا تھا ''میں تو بس ایک ہی بات جانتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا'' اس کے ساتھ ہی وہ یہ ثابت کرنے پر تل گیا کہ اس کی طرح دوسرے لوگ بھی بے خبر ہیں وہ کچھ نہیں جانتے۔ اس کا کام یہ تھا کہ خود سیکھے اور دوسروں کو سیکھنے کے قابل بنائے۔
اس نے کہا تھا میری ماں دایہ تھی اور میں اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں، میرا تعلق ذہنی زچگی کے امور سے ہے، میں دوسروں کا ہاتھ بٹاتا ہوں تاکہ وہ اپنے خیالات کو جنم دے سکیں۔ وہ ایتھنز کی گلی کوچوں میں مٹر گشت کرتا رہتا ہر جگہ وہ اپنا ابتدائی سا سوال پوچھتا۔ زہد و تقویٰ کیا ہے، جمہوریت کیا ہے، نیکی کس کو کہتے ہیں، حوصلہ مندی سے کیا مراد ہے، دیانت داری کیا شے ہے، انصاف کیا ہے اور سچائی کس کو کہتے ہیں؟
اچھا تو تم کام کیا کرتے ہو اور تم نے اس میں کون سے علم اور مہارت کا اضافہ کیا ہے، کیا تم سیاست دان ہو، اچھا اگر ہو تو یہ بتائو کہ تم نے حکومت کے متعلق سیکھا کیا ہے، وکیل ہو انسانی سرگرمیوں کے انسانی محرکات کے بارے میں تم نے کیا مطالعہ کیا ہے، استاد ہو خوب مگر ذرا یہ تو بتائو کہ دوسروں کو جہالت کے اندھیرے سے نکالنے سے پہلے تم نے خود اپنی جہالت پر قابو پانے کے لیے کون سے اقدامات کیے بتائو، بتائو نا! اس قسم کے سوالا ت کے ذریعے وہ علم و آگہی کے دعویداروں کے پول کھولا کرتا تھا لیکن اس کا مقصد برا نہیں تھا سقراط خود اپنی جہالت کو نمایاں کرنے پر بھی اتنا ہی آمادہ رہتا تھا، چاہتا وہ یہ تھا کہ غلطیوں کے اخراج کے ذریعے سچائی تک پہنچا جائے۔
ایک بار اس نے کہا تھا کہ ''میں سراغ رساں کتے کی طرح سچائی کا پیچھا کرتا ہوں'' سچائی کی اس جستجو میں اس نے اپنے مفادات نظر انداز کر دیے تھے، اپنا کام کاج بھلا دیا تھا یہاں تک کہ اس نے اپنے خاندان کو بھی نظر انداز کر دیا تھا۔ سقراط نے خود کو فلسفے کے لیے نثار کر دیا تھا اور وہ پوچھتا کہ فلسفہ کیا ہے؟ یہ فکر کا وہ عمل ہے جو ہمیں اپنے آپ کو جاننے کے قابل بناتا ہے چنانچہ پہلا اصول یہ ہوا کہ اپنے آپ کو جانو۔ صدیوں بعد عظیم بوویلیئر نے اس بات کو دو لائنوں میں بیان کیا ''غار کی تہہ میں کود پڑو، چاہے وہاں جنت ہو یا جہنم، نامعلوم حقیقت کی گہرائیوں میں، تاکہ کوئی نئی چیز ہاتھ آسکے'' اس کی اس بات کا مقصد اپنی اندرونی زندگی کا معروضی مطالعہ تھا۔
لافورگ نے سفر کے معنی ''اپنے اندر اترجانا'' بتائے ہیں اور ساں پول رونے ''اس طرح چلنا کہ آنکھیں اندر کی طرف لگی ہوں'' کہا تھا یہ سب لوگ داخلی زندگی کی حقیقت کی کھوج میں نظر آتے ہیں۔ بائبل کی مشہور حکایت ہے کہ ایک آدمی کا بیٹا گھر سے بھاگ کھڑا ہوا تھا اور بڑی مصیبتیں اٹھانے کے بعد واپس آیا تھا، بیٹا گھر لوٹ کے آتا ہے تو ماں پوچھتی ہے کہ تم گھر سے کیوں چل دیے تھے؟ بیٹا جواب دیتا ہے کہ میں ڈھونڈ یہ رہا تھاکہ آخر میں ہوںکون۔ عظیم فلسفی مارٹن ہیڈیگر نے کہا ہے ''ہم سب خود ایسی ہستیاں ہیں جن کا تجزیہ ہونا ہے'' تاریخ کے لحاظ سے اور نفسیات کے اعتبار سے ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اپنے ماں باپ کی کچھ خصوصیات لے کر آتا ہے۔
اپنی زندگی کے شروع کے پندرہ سال وہ اپنی سمجھ، شعور اور عقل سے پوری طرح کام نہیں لے سکتا ہے اس وجہ سے نہیں کہ اس کے گھر والے، ریاست یا سماج اسے منع کرتا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ خود اس کی سمجھ بوجھ، شعور اور عقل کی نشو ونما نہیں ہوئی ہوتی، اس دور میں اس کے گرد و پیش جو لوگ ہوتے ہیں ان کا اور ان کے خیالات، فکر اور شعور کا اثر خود بخود اس پر پڑتا رہتا ہے یعنی اگر سماج اور ریاست اس بات کی کوشش بھی کریں کہ وہ اپنی سمجھ بوجھ، شعور اور عقل میں مکمل آزاد ہو اور اس کی ذہنی نشوونما اس کے سو چنے کے عمل میں کسی طرح کی رکاوٹ، دخل اندازی یا خلل نہ ہونے پائے۔ تب بھی ہر فرد ایسا ہی ہوگا جیساکہ وہ اب ہے یعنی ہم اس وقت جیسے ہیں اس سے مختلف نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ ہم ہمیشہ ویسے ہی بنیں گے جیسا سماج ہوگا ہم کبھی بھی سماج کے بر عکس نہیں بن سکتے ہیں۔
اصل میں انسان میں نقل کا مادہ موجود ہے وہ بغیر کسی حکم کے یا خواہش نہ رکھتے ہوئے بھی دوسروں کی پیروی کرتا ہے، دوسروں کا رنگ ڈھنگ اختیا ر کرتا ہے، دوسروں کی سوچ اور انداز فکر اپناتا ہے اس لیے جیسا سماج ہو گا ویسے ہی اس کے افراد ہوں گے جیسے افراد ہوں گے ویسا ہی سماج ہوگا، سماج کو تبدیل کیے بغیر فرد کی تبدیلی ناممکن ہے۔ اگر سماج یرغمال نہیں ہوگا اس میں سوچنے، فکر کرنے پر پابند یاں نہیں ہوں گی، نئے خیالات آزادی کے ساتھ آ رہے ہوں گے تو فرد کے خود کو پہچاننے اور جاننے کا عمل مسلسل آگے ہی بڑھتا چلا جائے گا لیکن اگر سب کچھ اسے کے بر عکس ہوگا تو فرد اپنی آخری سانس تک خود کو نہ جان سکے گا اور نہ ہی پہچان سکے گا۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ سماج نہ تو راتوں رات تشکیل پاتے ہیں اور نہ ہی راتوں رات تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل کے نتیجے میں ممکن ہوتا ہے، ایک نوجوان ماں نے اپنے ڈاکٹر سے پوچھا ڈاکٹر صاحب میں اپنے بچے کی تعلیم و تربیت کب شروع کروں؟ ڈاکٹر نے دریافت کیا کہ بچہ کتنی عمر کا ہے؟ ماں بولی دو سال کا ہے۔ اس پر ڈاکٹر سنجیدگی سے بولا: تب تو تم نے ٹھیک دو سال ضایع کر دیے ہیں۔ آلو رونیڈل ہالمیز سے بھی کسی نے ایسا ہی سوال کیا تھا تو اس نے جواب دیا تھا کہ بچے کی تربیت اس کی نانی سے شروع ہو جانی چاہیے۔
انیسویں صدی کے سب سے مشہور برطانوی سیاسی مفکر اور مصنف جان اسٹورٹ مل نے اعتراف کیا تھا کہ اس کے ''ذہنی بحران'' کی جڑیں اس کے بچپن کی تربیت میں پیوست تھیں اس کے خیال میں وہ تربیت ناقص تھی کیونکہ اس کے ''اخلاقی جذبات'' کی نشوونما مناسب طورپر نہیں ہوسکی۔ ایپی قورس نے کہا ہے ''جو آدمی نیک نہیں وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا'' یہ ذہن میں رہے کوئی انسان برا اور بدکار نہیں بننا چاہتا ہے اس کا ماحول، اس کا اردگر د اس کی ناواقفیت اس کی لاعملی، اس کا سماج اس کو برا اور بدکار انسان بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔
دنیا بھر کے تمام ترقی یافتہ، کا میاب، خو شحال اور مہذب ممالک کے موجودہ سماج پہلے انتہائی بدترین اور غلیظ ادوار سے گزرے ہیں، دنیا بھر کی تمام برائیاں، خرابیاں اور غلاظتیں ان کے سماج میں موجود تھیں اور ان میں رہنے والے اپنے اپنے سماج کی تمام برائیاں، خرابیاں اور غلاظتیں اپنے اندر جذب کرچکے تھے اور پھر جب انھیں علم ہوا وہ واقف ہوئے انھوں نے اپنے آپ کو جانا اور پہچانا تو وہ چلا اٹھے اور پھر تعلیم، علم، و اقفیت اور تربیت کے ہتھیاروں کے ذریعے اپنے اپنے سماج کو تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا گیا اور پھر وحشی اور اپنے آپ سے نا واقف انسان مہذب بنتے چلے گئے۔ یاد رہے انسان ٹانگوں پر نہیں بلکہ اخلاقیات پر کھڑا ہوتا ہے۔ آئیں! ہم بھی تعلیم، علم، فکر، سوچ، واقفیت اور تربیت کی شمعیں روشن کرکے اپنے سماج اور لوگوں کو اندھیروں سے باہر نکالنے کے عمل کا آج ہی سے آغاز کر دیں۔ یاد رکھیں کروڑوں بچے اور بڑے اندھیروں میں پڑے درد سے کراہ رہے ہیں۔