پاکستان کارڈ
ہزاروں کشمیریوں نے ان کے جنازوں میں شرکت کی اور بھارتی فوج کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے گئے۔
مودی اس وقت بری طرح مسائل کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ ان مسائل میں شامل خواہ کسانوں کا مسئلہ ہو، ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی تحریکات کی بڑھتی ہوئی شدت ہو یا معیشت کی زبوں حالی، یہ تمام مسائل خود مودی کے پیدا کردہ ہیں۔
اب جب کہ ان مسائل کی وجہ سے اس کی حکومت کے ڈانواڈول ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی کو لاحق ہولناک خطرات نے مودی کو پاگل بنا دیا ہے تو اب وہ مزید بے وقوفانہ اقدامات اٹھاتا چلا جا رہا ہے۔ چین سے تو وہ پہلے ہی پنگا لے چکا ہے اب پاکستان پر حملہ کرنے کی کھلی دھمکی دی گئی ہے۔ گوکہ متنازعہ زرعی قوانین کو اب واپس لے لیا گیا ہے مگر اس بے وقوفانہ کارروائی نے سکھوں کو سخت ناراض کردیا ہے جس کی وجہ سے خالصتان کی تحریک پھر زور پکڑ گئی ہے۔
مودی نے جی ٹین کانفرنس میں شرکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم مسٹر بورس جانسن سے سکھوں کی جانب سے برطانیہ میں خالصتان کے قیام کے لیے منعقد کیے جانے والے کامیاب ریفرنڈم پر سخت احتجاج کیا ہے مگر اسے منہ کی کھانا پڑی ہے۔ مسٹر جانسن نے مودی کے احتجاج پر الٹا اسے ڈانٹ پلائی ہے کہ وہ آخر سکھ کسانوں کو کیوں تنگ کر رہا ہے۔ ان کے تمام مطالبات جائز ہیں انھیں فوراً پورا کیا جائے۔ مودی نے جی ٹین کانفرنس میں شریک کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈو سے بھی سکھوں کے لیے کینیڈین حکومت کی نرم پالیسی اور سکھوں کی تنظیم ''سکس فارس جسٹس'' کی بھارت مخالف سرگرمیوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹروڈو نے مودی کو تنبیہ کی ہے کہ وہ سکھوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کو بند کرے۔
خالصتان کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ ان کا حق ہے۔ آزادی کے وقت خود گاندھی اور نہرو نے ان کے لیے آزاد خود مختار خالصتان ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا پھر کیا ہوا اسے بھی بھارت نے کشمیریوں کے حق خود اختیاریت دینے کے وعدے کی طرح بھلا دیا۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی جانب سے جاری نئی تحریک نے بھارتی فوجیوں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا ہے۔ مودی کا خیال تھا کہ مقبوضہ ریاست کو بھارت میں ضم کرنے سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ کشمیری بھارت کی نو لاکھ فوج کے وادی میں ڈیرے ڈالنے ان کے تمام لیڈروں کو گرفتار کرنے اور عام کشمیریوں کو گھروں میں بند کرنے سے وہ ڈر کر اپنی آزادی کی تحریک سے دست بردار ہو جائیں گے اور وہ بھارت کے تسلط کو تسلیم کرلیں گے مگر وہاں الٹا ہی اثر ہوا ہے تحریک آزادی پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی ہے اور اسے سنبھالنا بھارت کی ٹڈی دل فوج کے بس کی بات نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت پونچھ کے جنگلوں میں بھارتی فوج مجاہدین کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
اس جنگل میں مجاہدین نے بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوائے ہیں اور بھارتی فوج کے کتنے ہی فوجی واصل جہنم کردیے ہیں۔ مجاہدین کی اس نئی حکمت عملی نے دلی حکومت کو بھی حیران و پریشان کردیا ہے۔ بھارتی فوجیوں پر مجاہدین کا ایسا ڈر و خوف چھا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی میں خود کو غیر محفوظ خیال کرتے ہیں وہ وادی سے دوسری جگہ منتقلی چاہتے ہیں۔ وہاں فوجیوں میں خودکشی کرنے کا عام رجحان ہے کبھی کبھی وہ خود اپنے ہی ساتھیوں پر گولیاں چلا کر انھیں ٹھنڈا کردیتے ہیں اور پھر خود بھی موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ اس خطرناک رجحان کے پیش نظر پہلے وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تھا انھوں نے مایوس بھارتی فوجیوں کی ہمت بڑھانے کے لیے زور دار بھاشن دیا تھا مگر فوجی اس سے مزید بدظن ہو گئے تھے چنانچہ خود مودی کو وادی کا دورہ کرنا پڑا۔
انھوں نے فوجیوں کی دلجوئی کے لیے روایتی لچھے دار تقریر کی مگر اس سے بھلا فوجی کہاں خوش ہونے والے تھے چنانچہ ان کے لیے کئی مراعات کا اعلان کیا گیا۔ مجاہدین کی مہم جوئی پر قابو پانے میں ناکامی پر فوجیوں نے پرانا ظالمانہ ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوئے مجاہدین کا بدلہ شہریوں سے لیا۔ ایک ڈاکٹر اور تین مزید افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی لاشوں کو بھی غائب کردیا گیا۔ ان بے قصور شہدا کے بیوی بچوں کی آہ و فغاں نے بھارت نواز کشمیری لیڈروں کو بھی بھارتی فوجیوں کے خلاف بولنے پر مجبور کردیا۔ اس سفاکی پر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے کھل کر مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کی اور قابض فوجیوں کے وادی سے واپس جانے کا مطالبہ کیا۔
اس سفاکی کے خلاف بھارتی فوج کے خلاف پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں ہڑتال کی گئی۔ ناچار بھارتی فوجیوں کو ڈاکٹر سمیت تینوں شہدا کی میتیں لواحقین کے حوالے کرنا پڑیں۔ ہزاروں کشمیریوں نے ان کے جنازوں میں شرکت کی اور بھارتی فوج کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں صرف مسلمان ہی نہیں ہندو اور سکھ بھی مودی کی ظالمانہ پالیسیوں سے بے زار ہیں۔ وہ بھی بھارتی آئین کی دفعات 35A اور 370 کو بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ غیر کشمیریوں کو وادی میں بسانے سے مقامی لوگوں کی نوکریوں اور روزگار پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ مودی نے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ نیا ظلم اس طرح شروع کیا ہے کہ وادی کے تمام سرکاری محکموں کے سربراہان کو ہدایت کی گئی ہے کہ ان کے محکموں میں ملازم تمام کشمیری مسلمانوں کے کوائف کو اکٹھا کرکے دہلی بھیجا جائے۔
اس ہدایت نامے کا اصل مقصد سیکڑوں مسلمان ملازمین کو تحریک آزادی کے ساتھ وابستگی کا بہانہ بنا کر انھیں بے روزگار کرنا ہے۔ مودی گوکہ کشمیریوں پر ظلم کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے مگر وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے مطالبے کی آواز خاموش نہیں کراسکا ہے۔ چنانچہ مودی مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی غلطی، کسانوں کے خلاف کارروائی اور گرتی ہوئی معیشت سے بھارتی عوام کی توجہ ہٹانے اور آنے والے ریاستی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اب ایک بار پھر پاکستان کارڈ استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی پاکستان پر حملہ کرنے کی حالیہ دھمکی بھی دراصل اسی حکمت عملی کی عکاس ہے۔ مودی کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بالا کوٹ پر ناکام فضائی حملہ کرکے پہلے ہی بہت نقصان اور بدنامی اٹھا چکا ہے اب اگر اس نے پھر وہی حرکت کی تو اب بقول عمران خان کے وہ مودی کے گلے پڑ سکتی ہے اور پاک فوج اب مودی کو اس کی اوقات یاد دلا کر ہی دم لے گی۔