تنخواہیں کم اور مہنگائی زیادہ
حکومت کو مہنگائی سے جنگ لڑنے کے لیے ہتھیار بھی مہیا کرنے چاہئیں۔ ہ
پاکستان کی معیشت کا انحصار بیرونی قرضوں پر ہے۔ چند روز قبل مشیر خزانہ شوکت ترین اور وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے کانفرنس کرتے ہوئے کہا آئی ایم ایف سے معاہدہ کی بنا پر ایک ارب ڈالر ملیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف بورڈ سے 1.059 ارب ڈالر کی اگلی قسط کی منظوری سے پہلے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری، پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں اضافے، ساڑھے تین سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے سمیت پانچ اہم پیشگی شرائط بھی پوری کرنی ہوں گی۔
پٹرولیم لیوی 4 روپے ماہانہ بڑھائی جائے گی اور اسے 30 روپے تک لے جایا جائے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ وزیر توانائی حماد اظہر نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ دنیا میں مہنگائی 30 سال کی بلند ترین سطح پر ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی مہنگی کرنے پر پہلے ہی بات ہوگئی تھی انھوں نے مزید کہا کہ بجلی گھروں سے سارے معاہدے پچھلی حکومتوں نے کیے تھے اب ہم 200 یونٹوں کی تشریح کر رہے ہیں۔
حالات حاضرہ نے یہ بات سمجھا دی ہے کہ مہنگائی کا طوفان بچے کچھے لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا قرضوں کی بھرمار نے پاکستان کو معاشی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے، قرض کے ساتھ سود کی ادائیگی پاکستان کی ترقی اور استحکام کو کمزور ترین کرنے کا باعث بنتی ہے، قرض اور سود کے معاملات پاکستانی عوام کے لیے جینے کی راہیں مسدود کرتے ہیں اگر دوسرے ملکوں میں گرانی میں اضافہ ہوا ہے تو وہاں آمدنی زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد سہولتیں حکومت نے فراہم کی ہیں، تعلیم مفت اور سستی، بے روزگاروں کے فنڈز کی ادائیگی، طلبا اور مستحقین کے لیے ماہانہ رقم کی فراہمی اور پھر مذہبی یا دوسرے تہواروں پر اشیائے ضروریہ کم داموں فروخت کرنا اخلاقی تقاضے میں شامل ہے۔
گویا یہ طریقہ کار بنایا گیا ہے بے شک دوسرے ملکوں کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط عوام کی فلاح کے لیے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں گزشتہ دو تین عشروں سے بادشاہت اور شہنشاہیت کا نظام چل رہا ہے سابق حکمرانوں نے اپنی اپنی تجوریاں بھر لیں ملک کو قلانچ کردیا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام بھوک اور خودکشی کے دہانے پر چلی گئی بے شمار لوگوں نے افلاس سے تنگ آ کر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا۔
موجودہ حکومت کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اس میں بسنے والے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ان کے پاس آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے مہنگائی بڑھتی ہے لیکن تنخواہوں اور اجرت میں اضافہ نہیں ہوتا ہے اگر سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین کی تنخواہوں کو بڑھا دیا جائے تب ان کی اپنی زندگی اور ہوائی روزی کمانے والوں کی زندگیوں میں ٹھہراؤ آجائے۔ ہر انسان کی ضروریات ایک سی ہیں بس امیری غریبی کا فرق ہے۔ اب اگر پلمبر، الیکٹریشن، مزدور اور دوسرے محنت کش اپنی محنت کے پیسے زیادہ مانگتے ہیں تو وہ پر ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کم تنخواہیں پانے والے ملازمین کس طرح اور کس کھاتے سے رقم ادا کریں؟ ان کے پاس تو علاج معالجے اور بچوں کو تعلیم دلانے کے پیسے نہیں ہیں، مہنگائی تیز رفتاری سے انسانی دل و دماغ پر پنجے گاڑ رہی ہے، لوگ ذہنی مریض بن گئے ہیں۔
حکومت کو مہنگائی سے جنگ لڑنے کے لیے ہتھیار بھی مہیا کرنے چاہئیں۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، پہاڑ، جنگل، سمندر، باغات سب ہی کچھ ہے۔ آئے دن پٹرول کے ذخائر دریافت ہوتے ہیں، بلوچستان اور سندھ سے قدرتی گیس کی خوشخبری بھی عوام کو سننے کو ملتی ہے اس کے ساتھ سونے چاندی کی کانیں بھی منظر عام پر آنے کی خبریں آئے دن سننے میں آتی ہیں سابق صدر نے اس کا غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ کیا، جسے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا گیا، پی پی کی حکومت کے بعد جب نواز حکومت آئی تو اس نے بھی اللہ کے دیے ہوئے اتنے وسیع خزانے پر خصوصی توجہ نہیں دی اس کے بعد پی ٹی آئی کو معاہدے کی خلاف ورزی کے تحت ایک بڑا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ اللہ نے پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے لیکن یہ پاکستان کی بدنصیبی ہے کہ غلط منصوبہ بندی اور مفاد پرستوں کی وجہ سے پاکستان ترقی کی منزل تک اب تک نہیں پہنچ سکا ہے۔
اگر پاکستان کے ہر صوبے میں صنعتوں کو فروغ دیا جائے زیادہ سے زیادہ کارخانے اور فیکٹریاں قائم کی جائیں تو بے روزگاری بھی ختم ہوگی اور پاکستان کی مصنوعات باہر کے ملکوں میں زیادہ مہنگے داموں فروخت ہوں گی اللہ نے پاکستانیوں کو بے شمار صلاحیتوں اور ذہانت سے نوازا ہے پاکستانی بھائی وہ کام انجام دے لیتے ہیں جو دوسرے نہیں کر پاتے، اسی وجہ سے سعودی عرب اور دوسرے ملکوں میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ طبقہ محض روزگار کے لیے دیار غیر میں جا بستا ہے ہمارے پختون بھائی جتنا محنتی شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ جون جولائی کی گرمی ہو یا باد سموم یا پھر ہیٹ اسٹروک جانوں کا نذرانہ وصول کر رہا ہو یہ محنتی اور جفاکش چلچلاتی دھوپ میں اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہوتے ہیں، بڑی عمارات اور اس کی بنیادوں کے لیے کھدائی کرنا آسان کام نہیں ہے، جان جوکھوں کا عمل ہے لیکن محض رزق حلال کمانے کے لیے آگ برساتے سورج اور لُو کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔
اسی طرح کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور اپنی جان کو خطروں میں ڈال کر کام کرتے ہیں اور آئے دن حادثات کی خبریں سامنے آتی ہیں، حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کرے اسی طرح تعمیراتی کام کرنے والوں کا خصوصی خیال رکھنا سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کا فرض ہے کم ازکم ٹھنڈے پانی اور سایہ کا انتظام جفاکشوں کی بنیادی ضرورت ہے کہ وہ کام کے دوران سستانے کے لیے تھوڑا سا وقت گزار لیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں وہ اور ان کے کم عمر بچے بھی محنت کر رہے ہوتے ہیں ان کے لیے مفت تعلیم، علاج و معالجے اور رہائش کے لیے ایک دو کمروں کے مکانات کی سہولت دینا انسانی تقاضا ہے۔
پی ٹی آئی سے غریب و امیر، غرض ہر طبقے کے لوگوں کو بڑی امیدیں تھیں لیکن ناقص منصوبہ بندی کے تحت سب تدبیریں الٹی ہوگئی ہیں، ٹیکس کی بھرمار، اللہ کی پناہ! ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، متوسط اور غریب طبقہ سخت پریشان ہے اسے خارجہ پالیسی کی کامیابیوں یا دوسرے مثبت کاموں سے کوئی غرض نہیں اسے تو صرف اور صرف ضروریات زندگی درکار ہے موجودہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ پسماندہ علاقوں میں سستی اشیا کے جنرل اسٹور قائم کریں ساتھ میں ہر علاقے میں سرکاری لائبریری اور اسکولوں کا قیام بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جہالت ہونے کی وجہ سے جرائم، ناانصافی اور تشدد کی فضا پروان چڑھی ہے۔