قومی افق پر نا اُمیدی کے سائے
ہمارا سر شرم سے جھک چکاہے۔ ایک ایسے ملک کا باشندہ جس نے ہماری ہر مشکل میں ثابت قدمی سے ہمارا ساتھ دیا ہو۔
QUETTA:
ہمیں اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم آج معاشرتی و اخلاقی گراوٹ کے اس درجہ پر جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں انسانیت ماتم زدہ اور نوحہ کناں نظر آتی ہے۔
سانحہ سیالکوٹ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ آج سے گیارہ بارہ برس پہلے بھی 15 اگست 2010 ء کو اسی شہر میں دو بھائیوں حافظ مہیب اور مغیز کو رمضان جیسے مبارک اورمقدس مہینے میں کچھ بپھرے ہوئے نوجوانوں نے تشدد کے ذریعے اسی طرح قتل کر ڈالا تھا۔ انسانوں کے ہاتھوں کسی دوسرے انسان کی اس طرح موت نے ہم سب کو ایک بار پھر انتہائی غم زدہ اور افسردہ کر دیا ہے۔
ہمارا سر شرم سے جھک چکاہے۔ ایک ایسے ملک کا باشندہ جس نے ہماری ہر مشکل میں ثابت قدمی سے ہمارا ساتھ دیا ہو۔ چاہے ڈینگی کی وبا ہو یا پھر دہشت گر دی کا راج ہو اُس ایک غریب اور پسماندہ ملک نے کسی وقت بھی ہمارا ساتھ نبھانے میں کسی تذبذب یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ہو اس کے ایک شہری کے ساتھ ایسے بہیمانہ سلوک نے ہمیں جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ سری لنکا نے ہمیں کبھی بھی مایوس نہیں کیا۔ معاملہ چاہے عالمی ہو یا علاقائی ہر مسئلہ میں وہ ہمارے ساتھ کھڑا رہا۔ ایک بہت ہی چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بھارت کے دباؤ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا۔ لیکن آج ہمارے چند افراد نے قانون ہاتھ میں لے کر ساری قوم کو شرم سار کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے پاس دنیا کو بتانے کے لیے کوئی عذر اور جواز تک باقی نہ رہا۔
ہم آج اپنی تاریخ کے سنگین بحران اور بدترین معاشی حالات سے دوچار ہیں۔ قومی افق پر مایوسی، اداسی، خوف اور بے چینی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ مہنگائی، ظلم وتشدد اور ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ہماری فسطائیت اور اخلاقی گراوٹ نے ہمیں ساری دنیا کے سامنے ذلیل و رسواکرکے رکھ دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہم نے ذہنی اور فکری ارتقا کے سفر کا کبھی آغاز ہی نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہم زمانہ قدیم کی کسی پسماندہ قوم کی مانند زندگی گزارنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔ ہمارا اجتماعی شعور اور ادراک و فہم بھی حالات کی سنگینی کے ساتھ ساتھ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہو چکا ہے۔
خاموشی، مصلحت پسندی اور ظلم و جبرکے سامنے ہتھیار ڈال دینا ہماری فطرت اور مجبوری بن چکا ہے۔ ہم احساس زیاں سے بے نیاز ہو کر اجتماعی خود سوزی اور خود کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد آج ہم دوسری بار اس مقام پر جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں ہماری بقا و سالمیت انتہائی خطرات سے دوچار ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں کی گرفت اورشکنجہ ہمیں اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے پر مجبور کر چکا ہے۔ ہمارے پاس بیچنے کو اب کچھ بھی نہیں بچا۔ ہم نے اپنے تمام اثاثے گروی رکھ دیے ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مخلص دوست ملک بھی ہمیں اب آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ ایسے حالات میں سیالکوٹ جیسے واقعات نے ہمیں سفارتی سطح پر اور بھی تنہا اور اکیلا کر دیا ہے۔
غور کرنا چاہیے کہ ملک و قوم کے یہ حالات کیونکر پیدا ہوئے۔ کیا ہم آج سے چند سال پہلے بھی انھی حالات سے دوچار تھے۔ جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ پھر کیا وجہ ہے ہم معاشی و معاشرتی طور پر اس قدر تیزی سے انحطاط پذیری کا شکار ہوگئے۔ برسراقتدار طبقہ کی ذمے داری ہے کہ وہ ان سوالوں کا تسلی بخش جواب قوم کے گوش گزار کرے۔ صرف سابقہ حکمرانوں کو اس کا ذمے دار قرار دینا حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ ہم سے کہاں کہاں غلطی ہوئی یہ تلاش کرنے کے بجائے صرف زبانی وکلامی اپنے مخالفوں پر الزامات کی سنگ باری کرنا اصلاح کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کا باعث بنتا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ قوم کو اچھے دنوں کی اب کوئی آس و امید بھی باقی نہیں رہی۔ جو مشیر خزانہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے معاشی بدحالی کو حکومت کی ناقص کارکردگی قرار دے رہے تھے عہدہ ملتے ہی اس کا دفاع کرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ چار چار وزیر خزانہ بدل لینے کے باوجود حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ ہم کس کھائی یا دلدل کے سپرد کر دیے گئے ہیں کہ جہاں سے نکلنا اب ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ اس غیر یقینی اورمستقبل سے نا اُمیدی کی فضا نے سرمایہ کاروں کے حوصلے بھی پست کر دیے ہیں۔ اب یہاں کیا کوئی غیر ملکی سرمایہ کار یا ملکی سرمایہ کار بھی پیسہ لگانے پر تیار ہوگا۔
دنیا پر مسلط عالمی طاقتیں ہمیں جس مقام پر دیکھنا چاہتی تھیںہم اس مقام پر اب پہنچ چکے ہیں جہاں سے ہم اس کے ہر حکم پر عمل کرنے سے انکار نہیں کرسکتے۔ یہ ہماری مجبوری بنا دی گئی ہے۔ ہم ایک ایٹمی قوت رکھتے ہوئے بھی اتنے بے بس اور لاچار بنا دیے گئے ہیں کہ سانس لینے کے لیے بھی اُن کی مرضی و منشاء کے محتاج ہو چکے ہیں۔ ایک طرف FATF ہمیں گرے لسٹ سے نکالنے کو تیار نہیں ہے تو دوسری طرف IMF کا شکنجہ ہماری پسلیاں تک توڑنے پر مصر اور بضد ہے۔ معیشت مکمل طور پر شکستہ اور برگشتہ ہو چکی ہے۔ اس کی بحالی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ ایسے حالات میں قوم کرے تو کیا کرے۔ کیا سڑکوں پر نکل کر اور بھی تباہی و بربادی کر دے یا خاموشی سے سارا عذاب برداشت کرتی رہے۔ یہ ذہنی دباؤ اور فرسٹریشن کہیں تو نکلے گا۔ لوگ خود کشی کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں۔
آمدنی میں اضافے کی کوئی امید نہیں ہے۔ مہنگائی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت ہے کہ ٹیکس پر ٹیکس لگاتی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے ریوینیوکو مشیر خزانہ معیشت میں بہتری قرار دیتے ہیں۔ معاشی صورتحال جانچنے کا یہ پیمانہ بھی عجیب القسم ہے۔ صنعت کار ہو یا تاجر، زمیندار ہو یا کسان سبھی آج حیران و پریشان ہیں۔ مگر معاشی ارتقا کے یہ پیمانے ہمارے مشیر حکومت کو مطمئن و شاد کر رہے ہیں کہ اُن کے مدبرانہ فیصلوں کے نتیجے میں ریوینیو میں اضافہ ہو رہاہے۔ جو ریوینیو قوم کے جسموں سے خون نچوڑ کر حاصل کیا جائے اُسے ہم کیسے ترقی وخوشحالی کا ضامن قرار دے سکتے ہیں۔ یہ سراسر آنکھوں میںدھول جھونکنے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
معاشی استحکام کے ایسے اعداد و شمار کبھی بھی پائیدار نہیںہوا کرتے۔ حکومت اگر پنجاب کے گورنر جناب چوہدری سرورکا بیان ہی پڑھ لے جو اُن کی اپنی پارٹی سے ہیں کہ IMF کے حالیہ معاہدہ نے ہمارا سب کچھ ہم سے چھین لیا ہے توکسی شک وشبہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ چوہدری سرور کا یہ بیان کسی مخالف سیاسی پارٹی کے ممبر کا نہیں ہے۔ حکومت کی اپنی پارٹی کے ایک بہت بڑے اہلکار اور اہم شخصیت کا ہے جسے جھٹلانا بھی شاید ممکن نہیں ہے تبھی کسی تردیدی بیان کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی بلکہ خاموشی ہی کو غنیمت سمجھا اور جانا گیا۔ اصلاح احوال کی ضرورت آج جس قدر اہم اور ناگزیر ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔