لعل بادشاہ اور پرویز مشرف
کیا واقعی حاکموں کی باز پرس کا ایک نظر نہ آنے والا نظام موجود ہے!
کیا انسان محنت سے ہر چیز حاصل کر سکتا ہے! کیا عقل اور دلیل کی بنیاد پر زندگی کی ہر گتُھی سُلجھ سکتی ہے۔ کیا وجدان اور جذب منزل کی تلاش میں کارگر ثابت ہو سکتے ہیں، کیا دعا سے مقدر کی انمٹ لکیریں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ قسمت بذات خود کیا ہے۔ حقوق العباد کو مسلسل جبر کا نشانہ بنانے والے لوگ آج اتنے آزاد کیوں ہیں، محدود اور لا محدود میں کیا فرق ہے۔ بصیرت کیا ہے اور نابینا کون ہے! زندگی کا عدم وجود کیا ہے اور زندگی کی حقیقت کیا ہے، کیا حاکم کو اس کے کیے ہوئے جبر کی چَکی میں خود بھی کبھی پسنا پڑتا ہے؟ میرے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں۔ کبھی کبھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ شائد میرے پاس سرے سے کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ میں توہم پرستی سے کوسوں دور ہوں۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال، میڈیکل کالج اور سول سروس نے مجھے بنیادی طور پر عملی انسان بنایا ہے۔ لیکن کئی واقعات اور مشاہدات مجھے دلیل کی دنیا سے باہر کے لگتے ہیں میں ان کو تسلیم کر بھی لیتا ہوں اور پھر انحراف کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ کئی جگہ میں وجدان کی کشتی میں بیٹھ کر عقل کا بادبان استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پر نتیجہ دیکھنے کے بعد وجہ تلاش نہیں کر پاتا ۔
لاہور کی لارنس روڈ کے وسط میں قادری صاحب کا بہت پرانا اور وسیع گھر ہے۔ آج سے پندرہ برس پہلے اتفاقاً ڈاکٹر عامر منیر شام کو مجھے اس گھر میں لے گیا۔ گھر کے بائیں کونے میں کچھ خاکی خیمے نصب تھے اور دور کونے میں دیگیں چڑھی ہوئی تھیں۔ خیمے میں فرش پر کئی لوگ مودب بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک بزرگ شخص درمیان میں بیٹھا عام سے موضوعات پر بات کر رہا تھا۔ ان میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ تھوڑی دیر میں کھانا آ گیا۔ ڈاکٹر عامر بہت زیادہ ادب سے اُس بزرگ سے بات کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں کسی قسم کا کوئی تاثر نہ آیا۔ یہ بزرگ قادری صاحب تھے۔ انھیں لوگ محبت سے لعل بادشاہ بھی کہتے تھے۔
میری جستجو نے مجھے چین نہ لینے دیا۔ میں اکثر دوپہر کو قادری صاحب کے پاس چلا جاتا تھا۔ قادری صاحب بہت دیدہ زیب کپڑے پہن کر کمرے سے باہر آتے تھے۔ ایک دن وہ مجھے اپنے خیمے سے باہر تک چھوڑنے آئے پھر ایک دم خدا حافظ کہہ کر کھڑے ہو گئے۔ میں خاموشی سے چلا گیا۔ پھر واپس آیا۔ میرے اصرار پر ملازم نے بتایا کہ قادری صاحب اپنے گھر سے گزشتہ تیس برس سے باہر نہیں آئے اور ایک خاص لکیر کو کبھی بھی عبور نہیں کیا۔ یہ حیرت کا پہلا جھٹکا تھا۔ مگر کیوں! تیس سال تو بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ پابندی ان پر اوپر سے لگائی گئی ہے۔ کیوں؟ اور کس نے؟ کوئی جواب نہیں۔ قادری صاحب ایک بہت بڑے گھر کے کونے میں ایک کمرے میں رہتے تھے۔ وہ دہائیوں سے اپنے کمرے کے علاوہ گھر کے کسی حصے میں بھی نہیں گئے تھے۔ وہ ہر دوپہر اور شام کو موسم کے مطابق بہت صاف ستھرے کپڑے پہن کر اپنے کمرے سے باہر کرسی پر آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ ان کو لوگ بلا امتیاز ملنے آتے رہتے تھے۔ اب لعل بادشاہ کے متعلق مجھے حیرت انگیز حقائق پتہ لگنے شروع ہو گئے۔
انھوں نے اپنے آپ کو ایک کمرے اور باہر کچھ کھلے حصے میں محدود کیا ہوا تھا۔ ان کے پاس تین نوکر تھے جو بہت خوش ذائقہ کھانا بناتے تھے۔ یہ کھانا ہر آنے والے کو موقع کی مناسبت سے کھلایا جاتا تھا۔ مگر اس کے پیچھے کی رمز بہت کم لوگوں کے علم میں تھی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ جس کا مفہوم ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلانے والا دراصل اللہ تعالیٰ کو قرض دے رہا ہوتا ہے۔ لعل بادشاہ روز کھانا بنواتے تھے اور عام لوگوں کو کھلا دیتے تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے اکثریت کو جانتے تک نہیں تھے۔ قادری صاحب نے اپنی تمام جمع پونجی اور جائیداد بیچ بیچ کر اس وصف سے لوگوں کو کھانا کھلانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا کہ رشک آتا تھا۔ مگر جائیداد ختم ہونے کے باوجود بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔ اب وہ حقیقت میں اکثر اوقات قرض لے کر سودا منگواتے تھے۔ کچھ عرصے بعد قرض کی رقم اچانک ادا کر دیتے تھے۔ کیسے! میرے علم میں نہیں۔ وہ کسی سے پیسے یا عطیہ نہیں لیتے تھے۔ وہ جیسے ہی اپنے کمرے میں واپس جاتے تھے، ٹاٹ کا لباس زیب تن کر لیتے تھے۔ وہ عبادت نہیں بلکہ ریاضت کرتے تھے۔
ایک دن مجھے کہنے لگے ڈاکٹر! آپ سمجھتے ہو کہ دن بھر فیصلے آپ لوگ کرتے ہو۔ نہیں! فیصلے تو رات کو ہی ہو جاتے ہیں تم لوگ تو صبح آ کر صرف دستخط کرتے ہو۔ ایک دن میں دوپہر سے پہلے چلا گیا۔ وہ اخبار پڑھ رہے تھے۔ مجھے پوچھنے لگے یہ وزیر اعلیٰ کیسا ہے! انھوں نے انتہائی اعتماد سے کہا کہ اس کی بہت شکایتیں آ رہی ہیں۔ یہ خلق خدا پر بہت سختی کرتا ہے۔ میں مسلسل خاموش رہا۔ پھر فیصلہ سنانے لگے۔ اس حاکم کا کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ شکایتیں حد سے بڑھ چکی ہیں۔ ٹھیک چند ہفتوں میں پنجاب کا وہ حاکم در بدر ہو چکا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ علاقوں پر خدا کے لگائے ہوئے نیک لوگ اپنے اپنے علاقوں کا نظم و ضبط سنبھالتے ہیں۔ یہ سب ڈیوٹی پر ہیں۔ لعل بادشاہ چند برس پہلے انتقال کر گئے۔
پرویز مشرف2001ء میں طاقت اور تکبر کے عروج پر تھا۔ اُس کی بنائی ہوئی نیب اپنی بھر پور ہیبت کے ساتھ موجود تھی۔ اس نیب کی دہشت اتنی تھی کہ میں نے کئی سرکاری افسروں کو اُس ظلم کی چکی میں پستے دیکھ کر مرتے ہوئے دیکھا تھا۔ میرا ایک سینئر دوست فارن سروس میں تھا۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے سے کچھ دن پہلے اس کی پوسٹنگ ایک مغربی ملک پر بالکل میرٹ پر ہو چکی تھی۔ اب سارا پروسس مکمل ہونے کی دیر تھی۔ وہ افسر اسلام آباد میں ایک سرکاری گھر میں رہتا تھا۔ اور اُس کے ساتھ اس کی بوڑھی والدہ بھی قیام پذیر تھیں۔ اچانک اس کا مغربی ملک میں جانے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ دراصل کسی مہربان نے نیب میں اس افسر کے خلاف ایک درخواست دے دی تھی کہ وہ کرپشن میں ملوث ہے۔ اُس کرپشن کا مکمل تخمینہ دس یا بارہ لاکھ تھا۔ درخواست دینے والا نا معلوم تھا۔
وہ افسر ذہنی طور پر بہت انتشار کا شکار ہو گیا۔ پوسٹنگ تو بڑی دور کی بات، اسے ایسے لگتا تھا کہ نیب والے کسی بھی وقت آ کر گرفتار کر لیں گے۔ وہ بے عزت ہونے کے خوف سے شدید ذہنی دبائو میں تھا۔ وہ اپنے کپڑوں کے متعلق بھی لاپرواہ ہو چکا تھا۔ وہ کئی کئی دن کھانا نہ کھاتا تھا اور پھر اچانک گھنٹوں کھانا کھاتا رہتا تھا۔ اس کے گھر کا ماحول بالکل تباہ ہو چکا تھا۔ اس افسر نے پرویز مشرف کو خط لکھا اور اپنی بے گناہی کے متعلق تفصیل سے بتایا۔ اس نے ملک کے چیف ایگزیکٹیو کو دس سے بارہ خطوط لکھے مگر ایک کا بھی جواب نہیں آیا۔ وہ پرویز مشرف کے کسی نزدیکی حلقے میں اپنی شنوائی چاہتا تھا مگر اس وقت کسی نے بھی اس کی مدد نہیں کی یا شائد کوئی کر بھی نہیں سکتا تھا۔ تمام اختیارات صرف اور صرف فرد واحد تک محدود تھے۔ جزا اور سزا سب کچھ!
اس کی بزرگ والدہ علی گڑھ یونیورسٹی کی فارغ التحصیل تھیں اور ایک ریٹائرڈ پرنسپل تھیں۔ میں سال میں چند مرتبہ انھیں سلام ضرور کرتا تھا۔ ایک دن مجھے میرے دوست نے پیغام دیا کہ والدہ نے بلایا ہے۔ میرے لیے یہ بات بہت حیرت کی باعث تھی کیونکہ اس کی والدہ نے کبھی بھی مجھے اس طرح طلب نہیں کیا تھا۔ میں ان کے پاس حاضر ہوا۔ ان کا بیٹا اور میں کرسی پر ماں جی کے کمرے میں بیٹھ گئے۔ وہ خاموشی سے قرآن پڑھ رہی تھیں اور زیر لب تلاوت کر رہی تھیں۔ اس وقت شائد وہ 70 برس کی ہونگیں۔ کچھ دیر بعد، انھوں نے کہا کہ ان کا بیٹا شدید تکلیف میں ہے۔ فرمانے لگیں! میرا بیٹا بالکل بے قصور ہے! اس کو کچھ نہیں ہو گا، یہ مشکل وقت بہت تکلیف دہ ہے مگر یہ گزر جائے گا اور خیر ہو گی۔ مکالمہ جاری رہا! میں نے خدا اور رسول کے دربار میں اپنے بیٹے کی بے گناہی کی عرضی دی ہے۔ اور وہ قبول ہو گئی ہے صرف اس لیے، کہ اس پر بہتان بالکل جھوٹ ہے۔ میں ادب کی وجہ سے خاموش رہا! مجھے آقا کی زیارت ہوئی ہے۔ صرف پیر مبارک نظر آئے ہیں۔ پھر انھوں نے عجیب سے لہجہ میں کہا، جس نے میرے بیٹے کو ناحق تکلیف دی ہے اسکو دنیا میں اتنی ہی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت تک اس بزرگ عورت کو بائیں طرف کا فالج ہو چکا تھا اور وہ مکمل صاحب فراش تھیں۔ مگر عبادت کا یہ عالم کہ سنگین بیماری کے باوجود تہجد سے لے کر ساری نمازیں، ڈاکٹر کے مکمل منع کرنے کے باوجود تمام روزے اور سارا دن نفلی عبادات میں مصرف کار رہتی تھیں۔
طویل عرصے کے دنیاوی عذاب کے بعد میرا دوست بالکل خیریت سے وہ مرحلہ عبور کر گیا۔ اس کے خلاف دی ہوئی درخواست تفتیش کے بعد جھوٹی ثابت ہوئی۔ اس تکلیف کا دورانیہ تقریباً دو سال رہا۔ اس کی پوسٹنگ اس وقت تک ختم ہو چکی تھی اور کوئی اور افسر اس کی جگہ پر جا چکا تھا۔ مسلسل جبر نے اس کے ذہن پر سے نہ مٹنے والے زخم لگائے تھے۔ اب وہ ایک مختلف انسان ہے! شائد بدلا ہوا انسان! چند سال پہلے ماں جی انتقال کر چکی ہیں۔
کچھ دن پہلے میں ٹی وی چینل پر پرویز مشرف کے متعلق ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا۔ ان کے وکیل دلائل کی فصیل بنا رہے تھے۔ اچانک مجھے اس بزرگ عورت کی بات یاد آئی، جس نے میرے بیٹے کو ناحق تکلیف دی ہے وہ دنیا میں خود اس تکلیف سے گزرے گا! یہ لوگ کون ہیں! لعل بادشاہ کیا واقعی ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کر سکتا تھا! کیا واقعی حاکموں کی باز پرس کا ایک نظر نہ آنے والا نظام موجود ہے! اس بزرگ خاتون نے پندرہ سال پہلے ایسی بات کیوں کی! میرے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں؟ اگر جواب ہوتا بھی، تو شائد بتا نہ سکتا!