نجکاری یا بیکاری
بقول پروفیسر نوم چومسکی نجکاری کا مطلب ’’عوام کی دولت کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنا‘...
بقول پروفیسر نوم چومسکی نجکاری کا مطلب ''عوام کی دولت کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنا'' یہ الگ مسئلہ ہے کہ یہ دولت کس حد تک عوام کی ملکیت ہے۔ جس حد تک بھی ہو نجی ملکیت سے ہر صورت میں بہتر ہے۔ نجکاری کے بارے میں حکمرانوں کی سب سے زیادہ شوریدہ دلیل یہ ہے کہ اسٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے ایسے ادارے ہیں جو تقریباً 500 ارب روپے کے خسارے کا بوجھ ریاست پر ڈال رہے ہیں اور اس سے ملک کی معیشت برباد ہورہی ہے، لیکن اگر ان تمام اداروں کی لسٹ کا جائزہ لیا جائے جن کو سرمائے کی منڈی میں نیلام کیا جارہا ہے تو یہ پتہ چلے گا کہ ان میں سے بہت سے ادارے خسارے کی بجائے حکومت کو بہت زیادہ منافع دے رہے ہیں۔ مثلاً تیل اورگیس کی ترقیاتی کمپنی اور جی ڈی سی ایل نے گزشتہ سال قومی خزانے میں ایک سو ارب روپے کا منافع دیا۔ دوسری جانب او جی ڈی سی ایل نے 3 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ کی قیمت پر سرکارکوگیس فراہم کی ۔ اگر اس کی نجکاری کی گئی تو ایک جانب گیس کی قیمتیں عوام کی بھاری اکثریت کی پہنچ سے بہت دور ہوجائے گی اور دوسری جانب ریاستی خزانے کو 100ارب روپے کا سالانہ خسارہ اٹھانا پڑے گا۔گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور لوڈ شیڈنگ پہلے ہی عوام کی زندگیوں کو اجیرن کررہی تھیں جب کہ بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہوکر بیروزگاری میں اضافہ کررہی ہیں، اسی طرح جن شعبوں کی نجکاری پچھلی حکومتوں میں ہوئی ہیں وہ بھی کرپشن سے پاک نہیں ۔
ان تمام رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو اس کے مقابلے میں ان کی ادا کردہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ لگتی ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ مزید ہزاروں ملازمین کو جبری برطرف کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہی کچھ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نیلامی کے بعد ہوا۔ سات ہزار ملازمین کو برطرف کردیا گیا، بیشتر غریب اور کم اثرورسوخ رکھنے والے علاقوں میں بے پناہ اضافی بلنگ کی گئی۔ ایک لاچارگی کے وقت اور عہد میں یہ بے یار و مددگار افراد ان بلوں کی ادائیگی میں اپنی پونجیاں لٹاتے رہے۔ اسی طرح نجی مالکان کی جانب سے انفرااسٹرکچر پر انتہائی ضروری نوعیت کے اخراجات بھی نہ کرنے کے باعث بھی کراچی کے شہریوں کو متواتر کئی کئی دن لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اسی اثناء میں مالکان نے 75 فیصد تک منافع کمائے اور بجلی کی پیداوار کے شعبے میں دوسری سامراجی اجارہ داریوں کی طرح اربوں ڈالر واپس اپنے مرکزی دفاتر کو ارسال کیے۔ کیا یہ اس ملک کے محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی نہیں تھی جسے ہمارے حکمرانوں نے نچوڑ کر رکھ دیا۔ نہ صرف وہ علاقے جہاں سے بلوں کی ادائیگی پوری نہیں آرہی تھی بلکہ کم بلوں یعنی کم بجلی فروخت کرنے والے علاقوں میں بھی بے دریغ اور ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کی گئی۔ دیہاتوں میں بجلی استعمال کم ہوتی ہے اور لوڈ شیڈنگ زیادہ ہوتی ہے۔
حکمرانوں نے کے ای ایس سی میں نہ صرف جبری برطرفیوں کے خلاف چلنے والی مزدوروں کی مزاحمتی تحریک کو بے دردی سے کچلا بلکہ اس سے ہونے والی بے روزگاری کو اجارہ داریوں کے ''پیداوار کے اخراجات'' میں ناگزیر کارروائی قرار دے کر ان سیٹھوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا۔ احتجاج کرنے والے محنت کشوں کی قیادت کو بد امنی پھیلانے کے جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کیا گیا ۔ ان سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 1000 میگا واٹ کا جو اضافہ منسوب کیا جاتاہے اگر اس کی حقیقت دیکھی جائے تو اس میں سے 560 میگا واٹ اضافے کے لیے سرمایہ کاری قومی تحویل کے دوران ریاست نے کی تھی اور باقی ماندہ سرمایہ کاری کے ای ایس سی کے اثاثوں کو بینکوں میں گروی رکھ کر ان کے ذریعے حاصل کردہ قرضوں سے کی گئی، مالکان کا اس سارے کھلواڑ میں ایک دھیلا بھی عملی طورپر نہیں لگا۔ جب کہ وہ بھاری منافع حاصل کرنے کے بعد اب اس کو آگے بیچ کر ساری دولت واپس اپنے ممالک میں لے جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ پاکستان میں بینکاری اور انشورنس کا شعبہ سب سے زیادہ منافع بخش ہے۔ جب کہ بھٹو نے ان مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا تو اس کا مقصد نہ صرف منافعوں کے نجی تجوریوں میں بھرنے کا عمل روکنا تھا بلکہ حکومت کو درکار ترقیاتی کاموں کے لیے آسان شرائط پر سرمایہ حاصل کرنا تھا۔
المیہ یہ ہے کہ اس شعبے میں نجی بینکز کی نجکاری 1989 میں بے نظیر بھٹو نے شروع کی تھی۔ ان بینکوں کو نہایت ہی سستے داموں نجی شعبوں کو دیا گیا بلکہ سرکاری خزانے سے ان میں 45 ارب روپے منتقل کیے گئے اور 50 ارب روپے کے نا دہندہ قرضوں کو خود اپنے ایک ادارے کے سپرد لے لیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف بینکوں کی 1600 شاخوں کو بند کردیا گیا اور ہزاروں ملازمین برطرف بھی ہوئے۔
ادھر پرائیویٹ ٹرینیں چل رہی ہیں لیکن ان سے ریلوے کا خسارہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔ ریلوے لائن کی دیکھ بھال اور اخراجات، عملے کی تنخواہیں،اسٹیشن کے اخراجات اور دیگر تمام خرچے سرکار کی ذمے داری ہیں جب کہ آمدن کے ذرایع نجی مالکان کے منافعوں کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے بیچ دیے گئے ہیں۔ اب انھیں آئی پی پی کے مالکان گردشی قرضے اور دوسرے ذرایع سے اربوں روپے حاصل کرکے مزید بڑے مگرمچھ بن چکے ہیں اور ان کی نظر واپڈا کے دیگر منافع بخش حصوں پر ہیں۔ ادھر پاکستان کے 90 فیصد مل، فیکٹری اور کارخانوں میں سوشل سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے، گجرانوالہ میں بیشتر فیکٹریوں میں تو 30/30 سال سے کام کرنے والے مزدوروں کو سوشل سکیورٹی کے کارڈ تک ایشو نہیں کیے گئے ہیں ۔
راولپنڈی سے ایک خاتون خالدہ کا درد ناک اور تکلیف دہ خط موصول ہوا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ان کی ایک بیٹی انٹر میں پڑھتی ہے دوسری آٹھویں میں، اس کے علاوہ چار چھوٹے بچے ہیں۔ وہ سلائی کرکے گزارہ کرتی ہے۔ اس کے شوہر گردوں کا مریض ہے اس لیے گھر میں ایک چھوٹی سی ٹافی کی دکان چلاتا ہے۔ اس خاتون کی شدید ترین خواہش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرے مگر مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ اس کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہ خاتون چارچھوٹے بچوں کو گھر میں خود ہی پڑھاتی ہے۔ اس کا کہناہے کہ ان کے چار بیٹے جب اسکول ہی نہ جا پائیں تو کیسے پڑھائی ہوگی۔ اس کا کہنا ہے کہ کم از کم اگر کوئی اسے ایک سلائی مشین خرید دے تو اس سے ان کی بیٹی بھی سلائی کا کام کرلے گی۔ اس خاتون کی نظر کمزور اور کمر میں درد رہتا ہے۔ اس لیے ایک گھنٹے سے زیادہ سلائی نہیں کر پاتی۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کے سماج اور غیر طبقاتی معاشرے میں ہی ممکن ہے، لیکن ایک حد تک نجکاری کو روک کر مزدوروں کو سوشل سکیورٹی کی سہولت فراہم کرکے اور غریب خاتون خالدہ کو سلائی مشین دے کر ایک حد تک خدمت تو کی جاسکتی ہے۔