پریانتھا کمارا کا قتل کیا منصوبہ بندی سے ہوا
پریانتھا کمارا کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مذہب کے نام سے یاعین مذہبی بناکرکسی کو ٹارگٹ کرناپرانا طریقہ واردات ہے۔
لاہور:
صدر پاکستان عارف علوی نے کہا کہ اس طرح کے حملے کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یقینا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن مذہبی بنا دیا جاتا ہے اور مذہب کی آڑ لے کر بہیمانہ اور دردناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ ذاتی انتقام کو بروئے کار لاتے ہوئے مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے۔
پریانتھا کمارا کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مذہب کے نام سے یا عین مذہبی بناکر کسی کو ٹارگٹ کرنا پرانا طریقہ واردات ہے۔ اس کے علاوہ سادہ لوح لوگ مذہب کو سمجھے بغیر عقیدت پسندی میں جنونیت کے شکار ہو جاتے ہیں۔ اسے سیالکوٹ کے محدود دائرے میں دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ پنجاب میں ایک عیسائی جوڑے کو بھٹے کی آگ میں زندہ جھونکا گیا، سوات مسجد میں فائرنگ کرکے 14 مسلمانوں کا قتل کیا گیا، کہیں انسانوں کے سروں کو کاٹ کر فٹ بال بنایا گیا۔ مردان ولی خان یونیورسٹی کے نوجوان مشعال خان کو قتل کیا گیا، ایک پروفیسر کو قتل کیا گیا۔
پریانتھا کمارا کو اس لیے قتل کیا گیا کہ ایک تنظیم کے اسٹیکر فیکٹری کے اندر لگائے گئے تھے۔ باہر سے ایک انسپکشن ٹیم آنے والی تھی۔ اب یہ اسٹیکرز ہٹائے گئے یا نہیں مگر پریانتھا کمارا کو اسٹیکرز ہٹانے کے الزام میں نہ صرف ہجوم نے مار مار کے قتل کیا بلکہ اسے آگ میں جلا دیا۔ قتل کرنے والے اپنی شناخت کو نہیں چھپا رہے تھے۔ وہ جلائے جانے کے وقت ناچ ناچ کر اس کی سیلفی بنا رہے تھے۔
ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ پریانتھا کمارا 7 سال سے اس فیکٹری میں نوکری کر رہا تھا۔ پولیس کو بہت دیر میں اطلاع ملی (یا دیر میں آئی) جب پہنچی تو کمارا کی لاش کو جلانے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ پولیس نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہجوم کی طاقت پولیس سے زیادہ تھی، اس لیے وہ روک نہیں پائے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
جی ہاں! گرفتار تو کرلیا جائے گا، ایف آئی آر بھی کٹ جائے گی، مقدمہ بھی چلے گا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سزا ہوگی بھی یا نہیں۔ یا پھر سزا ہونے کے بعد رہا کردیا جائے گا۔ اس لیے بھی کہ ماضی میں ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار خواتین اور لڑکیوں کے قاتلوں خاص کر نورمقدم، ڈاکٹر ماہا اور دیگر کے قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ جب کہ سری لنکا نے 1965 سے اب تک 50 ہزار آنکھیں (کورنیا) پاکستان کو عطیہ دے چکا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کی تمام دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں، مذہبی جماعتیں، سول سوسائٹیز، مزدور تنظیموں بشمول حکومت نے اس واقعے کی مذمت کی ہے سوائے جے یو آئی کے ۔ فضل الرحمن نے انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت بیان جاری کیا کہ توہین رسالت کے خلاف اگر سزا نہیں دی جائے گی تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ یعنی اس بہیمانہ قتل کو بالواسطہ طور پر سراہا گیا ہے۔ یہ مذہبی جنونیت پاکستان تک محدود نہیں۔
1965 میں انڈونیشیا میں امریکی سی آئی اے کی سازشوں کے ذریعے جنرل سوہارتو نے ایک مذہبی جماعت کے ساتھ مل کر 15 لاکھ کمیونسٹوں، امن پسندوں اور جمہوریت پسندوں کا قتل عام کیا۔ امریکی سرپرستی میں طالبان نے افغانستان میں قتل عام کیا، افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو قتل کیا۔ داعش نے ''آئی ایس آئی ایس'' بنا کر کرد اور یزدی خواتین کو اغوا کیا اور ریپ کیا۔ پھر کرد اور یزدی خواتین نے اپنی مسلح فوج تشکیل دی اور داعش کو مار بھگایا۔ اب تو کردستان میں کردوں نے عبداللہ اوگلان کی سرپرستی میں کمیون قائم کیا ہے۔
عمر خیام کے تحقیقی مرکز خراسان پر انھی رجعتی ملاؤں نے دھاوا بول کر ان کی تحقیق گاہ کو تباہ کیا اور آگ لگا دی تھی۔ میانمار (برما) میں فوجی آمریت کے خلاف ایک درجن سے زیادہ مسلح گروپوں نے گوریلا وار شروع کی ہوئی ہے۔ ان میں بیشتر یونیورسٹی کے طلبا ہیں اور ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے اور وہی قیادت کر رہے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے بھی پیپلز لبریشن آرمی تشکیل دی ہوئی ہے۔
سوڈان، صومالیہ، عراق، شام، نائیجیریا، مالی وغیرہ میں اشہاب، بوکوحرام اور القاعدہ نے لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا اور کر رہی ہیں۔ وہ اس پر بضد ہیں کہ یہی اسلام ہے۔ چند برس قبل پختون خوا میں اسکولوں کو دھماکوں سے اڑایا گیا اور لڑکیوں کو اسکول جانے اور نہ پڑھنے کی تلقین کرتے رہے۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان سیکولر اور جمہوریت پسند تھے مگر اس قسم کے رجعتی مذہبی عناصر نے اس ملک کو ایک انتہا پسند اور جنونیت پسند ملک بنا دیا ہے۔ درحقیقت ہمارے ملک میں رجعتی ملا، جاگیردار اور رجعتی نوکر شاہی کا ایک گٹھ جوڑ موجود ہے۔ جو ایک دوسرے سے مفادات کی بنیاد پر جڑے ہوئے ہیں۔
سندھ کا تو تقریباً ہر جاگیردار پیر بھی ہے اور سید بھی کہلاتا ہے۔ یہ زمین کے مالک ہیں اور مریدوں کو بھی رعایا کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں جاگیرداری کا خاتمہ ہو، زمین بے زمین اور کم زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے۔ ملاؤں اور پیروں کی جائیدادیں اور ملکیتوں کا خاتمہ کرکے انھیں عام لوگوں کی طرح کام کرنے کے لیے پابند کیا جائے، نوکر شاہی کی تنخواہیں عام محنت کشوں کی تنخواہوں کے برابر کی جائیں۔ یعنی کہ طبقاتی نظام کا خاتمہ بالخیر کرکے برابری کا نظام قائم کیا جائے۔