جمہوریت کے نام پر
کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص لابی کی حمایت حاصل ہے ہو سکتا ہے کہ یہ خیال درست ہو۔
جب عمران خان نے حکومت سنبھالی تو عوام میں ایک مسرت کی لہر دوڑ اٹھی کہ مڈل کلاس کا ایک ایماندار آدمی برسر اقتدار آیا اور عام آدمی خوش تھا کہ اب ہمارے مسائل حل ہوں گے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
وزیر اعظم کا تعلق ایک مڈل کلاس خاندان سے ہے اور دیکھا یہ گیا ہے کہ مڈل کلاس سے نکلا ہوا کوئی حکمران عموماً غریب عوام کا خیال رکھتا ہے اس پس منظر میں عوام نے ان سے بہت ساری امیدیں باندھ رکھی تھیں لیکن افسوس کہ وزیراعظم ایک ایسے بھنور میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنا بہت مشکل نظر آرہا ہے، ان کی سب سے بڑی غلطی اپنے ساتھیوں کا انتخاب ہے۔
انھوں نے اپنے ساتھیوں کے انتخاب میں وہ خیال نہیں رکھا جو حکومتوں کے بنانے میں رکھا جاتا ہے چونکہ ہماری جمہوریت بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ہے اس لیے اس کی بنیادیں جمہوری فراڈ پر رکھی گئی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس عمارت کی بنیاد جھوٹ، فراڈ، بے ایمانی پر رکھی جاتی ہے اس کا یہی حشر ہوتا ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے پیسے بنانے میں لگ جاتی ہے اور آج یہی کچھ ہو رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص لابی کی حمایت حاصل ہے ہو سکتا ہے کہ یہ خیال درست ہو لیکن یہ مخصوص لابی کس کے لیے کام کر رہی ہے اور عوام اس لابی سے کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں آج بھی عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انقلاب کے دعویدار نے عوام کو اس حال تک کیوں اور کیسے پہنچایا اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ماضی کے عیار خواص اس سے زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں جو پہلے تھے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان بے بس لاچار ہو کر رہ گیا ہے۔ عوام ان کی اس بے بسی سے مایوس ہو رہے ہیں جس کا نتیجہ ایک عمومی بے چینی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے اس قسم کی بے چینی بہت جلد عوامی ناراضگی میں بدل جاتی ہے جس کا نتیجہ بہت خراب نکلتا ہے۔
حکومت کی سب سے بڑی کمزوری مہنگائی کا فروغ ہے مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ عوام اس عذاب سے سخت نالاں ہیں اور عوام کی یہ ناراضگی کھسر پھسر سے نکل کر کھلی تنقید کی طرف آگئی ہے اور یہ خطرناک علامت ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا حکومت تنقید اور مایوسی سے واقف نہیں، کیا حکومت ماضی کی بدنام حکومتوں سے واقف نہیں؟ بلاشبہ موجودہ حکومت میں کرپشن کا گراف نسبتاً کم ہے لیکن جس رفتار سے مہنگائی اور برائیاں بڑھ رہی ہیں عوام میں اسی رفتار سے بے چینی بھی بڑھ رہی ہے اور جب عوام میں بے چینی بڑھنے لگی ہے تو یہ بے چینی بڑی تبدیلیوں کی طرف لے جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو ان طاقتوں کی حمایت حاصل ہے جو حکومتیں بناتی اور گراتی ہیں۔ حکومت کو یہ سہولت حاصل رہی کہ وہ ان بنانے اور بگاڑنے والوں کے قریب رہی ہے اور اندر کے اسرار و رموز سے واقف ہے اور اس کے علاوہ پاکستان کے رد و بدل سے بھی خوب واقف ہے۔
یہ بات پاکستان کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کی حکومتی تبدیلیوں میں عوام کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا اور یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سیاسی تبدیلیوں میں عوام کا ہاتھ برائے نام رہا ہے۔ جو کچھ تبدیلیوں کے نام پر پاکستان میں ہوتا ہے وہ چند خاندانوں کی مرضی ہوتی ہے۔ پاکستان آج بھی چند خاندانوں کی جاگیر بنا ہوا ہے اور اس ملک کو جاگیر کی طرح استعمال کر رہا ہے وہی چند خاندان جو ابتدا سے حکومت پر قابض ہیں وہ آج بھی حکومت چلا رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں طاقت عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے لیکن پاکستان کا حال یہ ہے کہ سیاسی تبدیلیوں کے عمل میں عوام کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا چند خاندان ہیں جو ہر سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور انھی کی مرضی اور مفاد میں تبدیلیاں آتی ہیں جب تک ان سیاسی تبدیلیوں میں عوام اپنا خصوصی سیاسی کردار ادا نہیں کریں گے اور غلام بنے رہیں گے ، سیاسی ٹلے فیصلے کرنے پر قادر رہیں گے۔ اس ملک میں کچھ نہیں بدلے گا، حکومت بلاشبہ ماضی کی حکومتوں سے کسی حد تک الگ ہے لیکن عوام کے مسائل کے حوالے سے حکومت کا جائزہ لیا جائے تو حکومت سابقہ حکومتوں سے کچھ زیادہ الگ بھی نہیں۔
اس خرابی کی وجہ وہ نظام ہے جو جمہوریت کے نام پر کچھ خاندانوں کو برسر اقتدار لاتا ہے اور ان کی پرورش کرتا ہے جب تک یہ گروہ ختم یا کمزور نہیں ہوگا جمہوریت کا نام لینا جمہوریت سے مذاق کرنا ہے۔ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتا ہے لیکن 73 سال سے پاکستان میں جمہوریت کا مطلب چند خاندانوں کی حکومت کے علاوہ کچھ نہیں اور جب تک جمہوریت کے نام پر یہ خاندانی حکمرانی ختم نہیں ہوگی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔