جنوبی ایشیا میں جین مت کا فروغ
جین مت آج دو بڑی ذیلی روایات پرکھڑا ہے، دیگمبراس اورسویتمبراس، جو زاہدانہ طور طریقوں اورصنف پرالگ نظریات کی حامل ہیں۔
جین مت قدیم ہندوستانی مذہب ہے، جسے روایتی طور پر جین دھرم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ جین خود اس کے ابدی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن یہ ہندوستان میں پانچویں صدی عیسوی کے آس پاس اس وقت نمایاں ہوا جب ویدک ہندو مت کو، برہمنوں کی رسومات کی ادائیگی پر اجارہ داری اور رسوماتی تصور کی اصلاح کے مطالبات کے ذریعے چیلنج کیا گیا۔
جین مت دراصل مذہب اور نجات کو ایک ذاتی معاملہ بنانے کا طریقہ تھا، جسے ہر کوئی حاصل کرسکتا تھا، اور ہر کسی کو رسومات کی ادائیگی کا حق تھا۔ جین مت بدھ مت ہی کی طرح ایک غیر توحید پرستانہ مذہب ہے۔ یہ خدا کے تصور کا پرچار نہیں کرتا اور عقیدت اور عبادت کی تقریبات ایک ہدایت یافتہ گرو، بنیادی طور پر جینا مہاویر کے لیے وقف ہیں۔
جین مت کبھی بھی تمام ہندوستان کا مذہب نہیں رہا، اس کے چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پیروکار ہیں، جنھیں جین کے نام سے جانا جاتا ہے وہ زیادہ تر بھارت میں رہتے ہیں۔ یہ بھارتی آبادی کا 0.37 فی صد ہیں، زیادہ تر مہاراشٹر کی ریاستوں (2011 میں 14 لاکھ، 31 فی صد ہندوستانی جین)، راجستھان (13.97 فی صد)، گجرات (13.02 فی صد) اور مدھیہ پردیش (12.74 فی صد) میں آباد ہیں۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے، جو جین مت کے مراکز میں سے ایک ہے، مہاتما گاندھی غالباً اپنی جوانی میں جین مت سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے جین پڑوسیوں سے 'اہنسا' (کوئی نقصان نہ پہنچانا) کے مذہبی اصول کو اپنے ہندو عقیدے میں لے لیا، اور اسی سے بعد میں اپنی زندگی میں ستیہ گرہ (سچائی کی طاقت) کا اپنا مشہور اصول تیار کیا۔ یہ مثال واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ مختلف ہندوستانی مذاہب کس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور بہت سے خیالات ان میں مشترک ہیں۔
جین مت آج دو بڑی ذیلی روایات پر کھڑا ہے، دیگمبراس اور سویتمبراس، جو زاہدانہ طور طریقوں اور صنف پر الگ نظریات کی حامل ہیں، اور یہ کہ کون سے متن کو عام قانون سمجھا جا سکتا ہے۔ دونوں میں خیرات پر گزارا کرنے والے موجود ہیں عام لوگ جن کی مدد کرتے ہیں۔ جین مت کے تین اہم ستون ہیں جو دونوں فرقوں میں مشترک ہیں، ایک عدم تشدد، کہ جانوروں سمیت تمام جاندار ہمارے ساتھی ہیں، یہ جینوں کے سخت سبزی خور ہونے کی وجہ ہے۔
دوسرا اصول غیر مطلقیت کا ہے، یعنی حتمی سچائی اور حقیقت پیچیدہ ہے اور اس کے متعدد پہلو ہیں۔ اسے زندگی کے مختلف طریقوں اور نظریات کی رواداری کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ تیسرا ہے غیر وابستگی (مادی چیزوں سے)۔ اس کے مطابق نہ کوئی شخص اور نہ کوئی چیز کسی چیز کا مالک ہے۔ جین مت میں یہ ایک خوبی ہے کہ بہت سا مال نہ رکھا جائے۔
جین مت اپنے روحانی نظریات اور تاریخ کا سراغ چوبیس رہنماؤں یا تِرتھنکروں کے ایک ترتیب وار سلسلے کے ذریعے لگاتا ہے، موجودہ وقت کے دوران کا پہلا شخص رشبھ دیوا کہلاتا ہے، جس کے بارے میں روایت ہے کہ وہ لاکھوں سال پہلے زندہ رہا تھا، اور ''مہاویرا'' تقریباً 600 قبل مسیح چوبیسواں تِرتھنکر تھا۔
جین مت کے اعتقاد کے نظام کے تین بنیادی اصول ہیں، جن کے مطابق ایک جین اپنے آپ کو کرما کے اصول کی روشنی میں دیکھتا ہے، جو ایک وسیع سائیکو کاسمولوجی کے اندر کا بنیادی اصول ہے۔ انسانی اخلاقی اعمال روح کی منتقلی کے لیے بنیادیں تشکیل دیتے ہیں۔ روح بار بار جنم کے ایک چکر میں محبوس ہے، ارضی دنیا میں پھنسی ہوئی ہے، یہاں تک کہ وہ آخر کار آزادی حاصل کر لیتی ہے۔ آزادی تزکیہ کے راستے پر چلنے سے حاصل ہوتی ہے۔ جینوں کا خیال ہے کہ کرما ایک جسمانی مادہ ہے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔
جب ہم کچھ کرتے ہیں، سوچتے ہیں یا کہتے ہیں، جب ہم کسی چیز کو مارتے ہیں، جب ہم جھوٹ بولتے ہیں، جب ہم چوری کرتے ہیں، تو روح کی طرف کرما کے ذرات اسی روح کے افعال کی وجہ سے متوجہ ہو جاتے ہیں۔ کرما نہ صرف نقل مکانی کی وجہ پر محیط ہے، بلکہ اسے ایک انتہائی لطیف مادے کے طور پر بھی تصور کیا جاتا ہے، جو روح میں گھس کر اس کی فطری، شفاف اور خالص خصوصیات کو مبہم بنا دیتا ہے۔ اسے ایک قسم کی (مثبت یا منفی) آلودگی سمجھا جاتا ہے، جو روح کو مختلف رنگوں سے داغدار کرتا ہے۔ اپنے کرما کی بنیاد پر ایک روح منتقلی سے گزرتی ہے اور وجود کی مختلف حالتوں میں دوبارہ جنم لیتی ہے، جیسا کہ جنت یا جہنم، یا انسان یا جانوروں کے طور پر۔
جین کرما کے وجود کے ثبوت کے طور پر عدم مساوات، تکالیف اور درد کا حوالہ دیتے ہیں۔ روح کی طاقت پر اثرات کے مطابق کرما کی مختلف اقسام کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ نظری جین کرما کے پورے عمل کی وضاحت کرما ذرات کی مسلسل آمد اور اس سے جڑت کے مختلف اسباب کی تخصیص کے ذریعے کرتا ہے، نہ صرف اعمال پر یکساں زور دیتے ہوئے، بلکہ ان اعمال کے پیچھے ارادوں پر بھی۔ کرما کا نظری جین انفرادی اعمال پر بڑی ذمے داری عائد کرتا ہے، اور فضل الٰہی یا برائی کے بدلے کے قیاسی وجود پر ہر قسم کے انحصار کو ختم کرتا ہے۔ جین کا نظریہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمارے لیے اپنے کرما کو تبدیل کرنا، اور اس سے رہائی حاصل کرنا، دونوں سادگی اور اخلاق کی پاکیزگی کے ذریعے ممکن ہے۔
سنسار (منتقلی) ایک اور بنیادی اصول ہے۔ جین فلسفہ دنیاوی زندگی پر مبنی ہے، جس کی خصوصیت وجود کے مختلف دائروں میں مسلسل پُنر جنم اور تناسخ ہے۔ اسے مادی موجودی کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو مصائب اور تکالیف سے بھری ہوئی ہے، اور اس لیے اسے ناپسندیدہ اور قابل ترک سمجھا گیا ہے۔ سنسار بغیر کسی ابتدا کے ہے، اور روح اپنے آپ کو اپنے کرما کے ساتھ ازل سے پابند پاتی ہے۔
موکش ایک سنسکرت لفظ ہے، اس سے دنیا، سنسار، پیدائش اور موت کے چکر سے کسی روح کی آزادی یا نجات کا واحد راستہ لیا جاتا ہے۔ یہ روح کے وجود کی ایک خوش کن حالت ہے، جو تمام کرمی بندھنوں کی تباہی کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ روح لامحدود نعمتوں، لامحدود علم اور لامحدود ادراک کی اپنی حقیقی اور قدیم فطرت کو حاصل کر لیتی ہے۔
ایک آزاد روح کو سِدھا کہا جاتا ہے اور جین مت میں اس کی تعظیم کی جاتی ہے۔ سب سے اعلیٰ اور عظیم مقصد کے طور پر جس کو حاصل کرنے کے لیے ایک روح کو کوشش کرنی چاہیے، وہ ہے مکش (Moksha)، وہ واحد مقصد جو ہر شخص کا ہونا چاہیے، دوسرے مقاصد روح کی اصل فطرت کے برخلاف ہیں۔ صحیح نقطہ نظر، علم اور کوششوں سے تمام روحیں اس حالت کو حاصل کر سکتی ہیں۔ اسی لیے جین مت کو ''آزادی کا راستہ'' بھی کہا جاتا ہے۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)