نیا بلدیاتی نظام نامنظور
افسوس کہ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی بل قطعی غیر جمہوری طریقے سے پاس کرایا ہے۔
RAWALPINDI:
پاکستان میں جمہوریت کا جو حشر ہوا ہے ، ویسا شاید ہی کسی اور ملک میں ہوا ہوگا، حالانکہ یہ ملک جمہوری بنیادوں پر قائم ہوا تھا اور ملکی نظام کی شروعات ہی جمہوری سیٹ اپ سے ہوئی تھی مگر افسوس کہ جمہوریت پر چار بار شب خون مارا گیا اور اس کی جمہوری اقدار کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا۔
تاہم ہر آمریت کے خاتمے کے بعد پھر جمہوریت کو زندہ کیا گیا اور اسے پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی مگر یہاں جمہوریت کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ خود جمہوریت کے علم برداروں نے جمہوریت کا گلا گھونٹا اور اسے آمریت سے بھی بدتر بنا دیا پھر خواہ وفاق ہو یا صوبے تمام کا رویہ آمرانہ طرز کا رہا۔
جمہوریت کے علمبرداروںنے جمہوریت کے اصولوں کی کبھی پاس داری نہیں کی اور اقتدار میں آنے کے بعد وہ گھناؤنے کھیل کھیلے کہ جمہوریت اس ملک میں اپنے قدم نہ جما سکی۔ اگرشخصیت پرستی کے بجائے اداروں کو مضبوط بنایا جاتا اور قانون کو حقیقی معنوں میں بالا دست قوت کے طور پر پیش کیا جاتا تو یقینا جمہوریت فروغ پاتی اور آمریت کو کبھی جمہوریت کا راستہ روکنے کا موقع نہ ملتا۔ حالانکہ عوامی مفادات کو ہر جمہوری حکومت کو اولیت دینا یا ترجیح دینا بنیادی نکتہ ہونا چاہیے تھا مگر عوامی مفادات کی ناقدری کی گئی۔
بعض سیاستدانوں نے خود اپنے اور اپنے خاندان کے مفادات کو تو مقدم رکھا مگر عوامی مفادات کو پس پشت ڈالے رکھا۔ اس کے برعکس ہر آمرانہ نظام میں عوام کے بنیادی حقوق کی ضرور پاس داری کی گئی اور انھوں نے خاص طور پر بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنایا اور ان کے لیے مفید قوانین ہی نہیں بنائے بلکہ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا۔
سابق جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی نظام کو نئے سرے سے مرتب کیا گیا۔ نئے مفید قوانین واضح کیے گئے جو عوامی توقعات کے عین مطابق تھے۔ اس نئے نظام کے تحت اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا تھا۔ اس طرح ہر محلے کی یونین کونسل کو وہاں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کا مجاز بنانا تھا۔ یہ نظام پورے پرویز مشرف دور میں کامیابی سے چلتا رہا۔ اس نظام کے تحت پورے پاکستان میں شہری علاقوں میں مثالی ترقیاتی کام انجام پائے۔
اس نظام میں ہر شہر کا میئر تمام بلدیاتی اداروں کی نگرانی کرتا تھا۔ تمام بلدیاتی ادارے اس کے ماتحت تھے۔ اس دور میں خاص طور پرکراچی میں بھرپور ترقیاتی کام انجام پائے۔ ان ترقیاتی تعمیری کاموں نے کراچی کا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال، نعمت اللہ خان کے بعد کراچی کے میئر بنے۔ انھوں نے دن رات محنت کرکے کراچی کو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔ ان کے ملکی سطح پر تو ہر کوئی گن گا ہی رہا تھا عالمی سطح پر بھی ان کے کاموں کو سراہا جا رہا تھا۔
پھر ہوا یہ کہ پرویز مشرف کے دورکا خاتمہ ہو گیا اور ملک میں پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت قائم ہوگئی۔ پیپلز پارٹی گو کہ ایک عوامی پارٹی ہے اور عوام میں اس کے لیے بہت عزت پائی جاتی ہے مگر یہ سب شہید ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق بے نظیر بھٹو کے بعد اس پارٹی نے عوام سے رشتہ رکھتے ہوئے بھی عوام کی خدمت کم اور سیاست زیادہ کی ہے۔
کراچی کی سیاست میں گوکہ اس کا اہم حصہ ہے مگر اسے عوامی مینڈیٹ یہاں سے ہمیشہ کم ملا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ایم کیو ایم ہے جس کی محبت میں سرشار کراچی کے عوام نے اس پارٹی کے علاوہ کسی کو بھی اپنے ووٹ کا حق دار نہیں سمجھا مگر افسوس کہ وہ کئی حکومتوں کا حصہ ہوتے ہوئے بھی عوامی مسائل کو حل نہیں کرا پائی۔ کراچی کی درست مردم شماری کرانا اور دو فی صد کوٹے کو بڑھوانا یہاں کے عوام کے دیرینہ مطالبے رہے ہیں۔
افسوس اس امر پر کہ ایم کیو ایم نے کراچی کی غلط مردم شماری کو بھی درست تسلیم کیا اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات میں کمی کی پیپلز پارٹی کی سندھ اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد کو بھی منظوری دی۔ ایم کیو ایم کی جانب سے پیپلز پارٹی کی اس ہمت افزائی سے اسے بلدیاتی نظام کو مزید کمزور کرنے اور عوامی اختیارات کو کم کرنے کے سلسلے میں مزید آگے بڑھنے کی ترغیب ملی۔
پیپلز پارٹی نے کراچی کے میئر کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے کئی بلدیاتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں کرلیا تھا۔ اب اس نے گزشتہ دنوں 26 نومبرکو نیا بلدیاتی نظام متعارف کراتے ہوئے تقریباً سارے ہی بلدیاتی اداروں کا چارج خود سنبھال لیا ہے۔ ان میں کے ایم سی کے وہ محکمے بھی شامل ہیں جو زیادہ ریونیو پیدا کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی یہ کارروائی نہ صرف میئر کے اختیارات پر ڈاکا ڈالنا ہے بلکہ کراچی کے عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ یہ کراچی کی ترقی کو روکنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے میں بھی پس و پیش کرتی رہی ہے اب وہ الیکشن کمیشن کے دباؤ پر راضی ہوئی ہے مگر اسے ابھی بھی حلقہ بندیوں پر تحفظات ہیں۔ اب پیپلز پارٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اگلے سال کے مارچ کے مہینے میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔ کراچی میں سرگرم تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے پیپلز پارٹی کے پیش کردہ نئے بلدیاتی نظام کو مسترد کردیا ہے۔
وفاقی حکومت نے بھی بلدیاتی نظام میں ترمیمات کو عوام کے حقوق پر شب خون مارنے سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ کیسا نظام ہے جس میں میئر کو بالکل مفلوج کردیا گیا ہے جب کہ پاکستان کے تمام شہروں کے میئرز مکمل بااختیار ہیں۔ کراچی کے میئر کو صرف پانی اور سیوریج کا محکمہ دیا گیا ہے جب کہ اب صحت اور تعلیم سے لے کر فرسٹ ایڈ فراہم کرنے والا شعبہ بھی سندھ حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے سندھ حکومت کے اس اقدام کو چیلنج کیا ہے انھوں نے چیف جسٹس سے سپریم کورٹ میں اس ضمن میں دائر کردہ پٹیشن جس پر ان کے اور وزیر اعظم کے دستخط ہیں پر جلد سماعت کا مطالبہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی گو کہ خود کو جمہوری پارٹی کہتے ہوئے نہیں تھکتی مگر افسوس کہ اس نے بلدیاتی بل قطعی غیر جمہوری طریقے سے پاس کرایا ہے۔ نہ تو اس کی کاپیاں پہلے سے عمران خان کو دی گئیں اور نہ ہی اس بل پر اسمبلی میں بحث کرائی گئی۔ اس زیادتی کے ذریعے پیپلز پارٹی نے خود عوامی غیض و غضب کو دعوت دی ہے۔ چنانچہ پیشتر اس کے کہ عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اسے خود ہی اس بل کو واپس لے لینا چاہیے۔