سندھ میں ٹاؤن نظام کی بحالی
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ گیٹ وے آف ایشیا کا درجہ پانے والا شہر کراچی کو عرصہ دراز سے کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔
MULTAN:
اطمینان بخش امر یہ ہے کہ بالترتیب 9 اور 10 دسمبر کو سندھ کابینہ اور سندھ اسمبلی نے نئے بلدیاتی نظام پر اپوزیشن کے 99 فیصد تحفظات دورکرتے ہوئے ازسر نو ترامیم کرکے منظوری دے دی ہے، جس کے مطابق میئرکے انتخابات کے لیے یو سی کا ممبر ہونا ضروری ہوگا اور انتخاب شو آف ہینڈ کے ذریعے ہوگا ، پراپرٹی ٹیکس براہ راست ٹاؤنز وصول کریں گے ، دودھ کی سپلائی لوکل کونسلزکی ذمے داری ہوگی ، میونسپل سروسز کے تمام اختیارات بلدیاتی نمایندئوں کے پاس ہونگے۔
میئرکراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا شریک چیئرمین ہوگا ، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ میں بھی بلدیاتی نمایندوں کا اہم کردار ہوگا ، لوکل کونسلز میں جسمانی معذوری کا شکار افراد اور خواجہ سرا کی بھی نمایندگی ہوگی ، تاہم اسپتال ، میڈیکل کالج اور اسکولز صوبائی حکومت چلائے گی۔
یاد رہے کہ کچھ قانونی پابندیوں کی وجہ سے بلدیاتی نظام یکم دسمبر 2021 سے پہلے لانا ضروری تھا۔ اس لیے عجلت میں 25 نومبر 2021 کو سندھ اسمبلی نے سندھ بلدیاتی ترمیمی بل 2021 کی منظوری دی ، جس کے تحت ضلع نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ٹاؤن نظام نافذ کیا جا رہا ہے ، جس کے نکات سامنے آنے کے بعد سندھ کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور شہریوں بالخصوص کراچی میں اضطراب کا عالم رہا اور یہ بات تواتر کے ساتھ کہی گئی کہ سندھ حکومت شہری عوام بالخصوص کراچی پر مکمل قابض ہونے کے لیے یہ بل سندھ اسمبلی سے منظور کروا لیا ہے اور یہاں تک کہا گیا کہ یہ بل کراچی کے شہریوں کو غلام بنانے کے مترادف عمل ہے اور کراچی کے تمام اداروں پر مکمل قبضہ کا کالا قانون ہے ۔
شنید ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میں 20 یا 25 ٹاؤنز بنائے جائیں گے جب کہ حیدر آباد میں 8 ٹاؤن بنائے جائیں گے۔ یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں 2001 کو کراچی ڈویژن کا خاتمہ کرکے کراچی سٹی حکومت قائم کی گئی تھی جس کے تحت کراچی میں 18 ٹاؤنز بنائے گئے تھے اور 178یونین کونسلیں تشکیل دی گئی تھیں، جس کے ناظمین و نائب ناظمین اور کونسلرز بااختیار تھے۔
سیاسی و سماجی سطح پر پرویز مشرف کے اس بلدیاتی نظام کوکامیاب قرار دیا گیا تھا اور اسی دور میں کراچی اور حیدرآباد میں مثالی ترقیاتی کام ہوئے تھے اور اسی دوران سندھ سے کمشنری نظام کا بھی خاتمہ کیا گیا تھا لیکن بعد کی آنے والی سندھ حکومت نے پرویز مشرف کے اس بلدیاتی نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے کراچی ڈویژن کو بحال کیا اور ضلع حکومتیں قائم کیں اور ساتھ ہی کمشنری نظام بھی بحال کیا گیا ، لیکن سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزاں رہی۔
آخر کار سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت 2015 میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تھے اور 31اگست 2020 کو چار سالہ مدت پوری ہونے کے بعد کراچی سمیت سندھ بھر کے تمام بلدیاتی نمایندے ذمے داریوں سے سبکدوش ہوگئے تھے، یعنی سندھ میں منتخب بلدیاتی کونسلیں تحلیل کردی گئی تھیں۔ اس کے بعد سندھ حکومت نے بروقت آئین کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرانے کے بجائے سندھ بھر کے بلدیاتی اداروں میں سرکاری افسران پر مشتمل ایڈمنسٹریٹرز تعینات کر دیے۔ اس بار الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عدالتی حکم کے تحت اپنی آئینی ذمے داری پوری کرتے ہوئے چاروں صوبائی حکومتوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرائیں۔
غالب امکان ہے کہ صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات مارچ 2022میں کرائے جائیں گے۔ خیال رہے کہ 2001کے بلدیاتی نظام کے تحت لینڈ ریونیو ، تعلیم ، صحت ، ٹرانسپورٹ ، تعمیرات سمیت تمام بلدیاتی ادارے سٹی حکومت کے ماتحت تھے اور عوام پر بالادستی کا انگریزوں کا بنایا ہوا ضلع کمشنری نظام بھی ختم کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2013 میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مشترکہ جمہوری حکومت نے جو محکمے شہری حکومت سے جدا کردیے وہ درج ذیل ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ ، ماس ٹرانزٹ سسٹم ، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ ، ڈایزاسٹر مینجمنٹ ، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، موٹر وہیکل ٹیکس ، ماحولیات ، لیبر ، اسپورٹس اینڈ کلچر ، آئی ٹی وغیرہ وغیرہ ، مقامی حکومتیں اور دیہی ترقی ، ایکسائز اینڈ ٹیکنیشن ، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی ،کے ایم سی کے تمام اسپتال ، فشریز ، شہری دفاع ، بہبود آبادی شامل تھے۔ حالیہ ترمیم سے قبل یعنی منظور شدہ 25 نومبر2021 کو سندھ بلدیاتی ترمیمی بل 2021 کے تحت سندھ حکومت نے جو محکمے شہری حکومت سے لیے وہ درج ذیل ہیں۔
کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ، عباسی شہید اسپتال ، سرفراز شہید اسپتال ، لیپروسی اسپتال ، سوبھراج میٹرینٹی ہوم ، اسپنسر آئی اسپتال اور دیگر ادارے جو کے ایم سی چلاتی تھی ، دودھ سپلائی اسکیم ، پیدائش و اموات اور شادیاں سرٹیفکیٹ ، بنیادی صحت کے مراکز ، اسپتال ، ڈسپنسریز ،میڈیکل ایڈ ، میڈیکل ایجوکیشن وغیرہ ، پرائمری تعلیم ، لازمی تعلیم اور اس کے متعلق تمام امور ، فوڈ اور ڈرنکس کے متعلق قانون سازی وغیرہ شامل ہیں ۔
اب حالیہ ترمیم کیا کیا کی گئی ہے اس کی تفصیلات اب تک سامنے نہیں آئی ہے ۔ ذہن نشین رہے کہ کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ پاکستان اور سندھ کی معیشت کو چلانیوالا شہر کراچی ہی ہے جسے میگا سٹی حکومت کا درجہ ملنا چاہیے لیکن افسوس ! اب تک ایسا نہیں کیا گیا ہے ۔ جن حکومتوں نے کراچی پر شب خون مارا ہے وہ درج ذیل صورتوں میں تھا۔ جعلی مردم شماری کی منظوری دے کر ، کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کرکے ، کے الیکٹرک کی سرپرستی کرکے ، سرکلر ریلوے اور پانی کے K.4 منصوبے پر دھوکا دے کر ، کراچی کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکیج کا لالی پوپ دے کر ، بلڈرز مافیا کی سرپرستی کرکے۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ گیٹ وے آف ایشیا کا درجہ پانے والا شہر کراچی کو عرصہ دراز سے کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ اس کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، بہتے ہوئے گٹر اس کی پہچان بن گئے ہیں۔ کیا کسی کو احساس ہے کہ شہرکراچی کے لوگ بجلی ، پانی ،گیس ، علاج و صحت ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ ، صفائی ، سیوریج سمیت بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں ؟ بے روزگاری اور مہنگائی نے الگ کراچی والوں کا جینا دوبھرکیا ہوا ہے پھر بھی کہا جاتا ہے کہ کراچی دنیا کا سستا ترین شہر ہے۔ ایسا مذاق کراچی والوں سے کیوں؟ کراچی کے نوجوان دن دیہاڑے سر بازار خود کشیاں کر رہے ہیں ، شہری نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔
خدارا ! کراچی کو سیاسی بحران ، غیر مستحکم معاشی صورتحال ، اقتصادی ، سماجی ، معاشرتی امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور لامتناہی بڑھتی ہوئی آبادی جیسے مسائل کے گرداب سے باہر نکالنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔کراچی کے شہری جس احساس محرومی کا شکار ہیں انھیں دورکیا جائے۔ کراچی بھی پاکستان کا حصہ ہے ،کراچی کو بھی اس کا حق دیا جائے۔کراچی کبھی بنتا ہے توکبھی اجڑتا ہے ،کراچی کے شہری کبھی ہنستے ہیں توکبھی تڑپتے ہیں۔ لہٰذا اب ضروری ہوگیا ہے کہ کراچی میں با اختیار شہری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔