سراندیپ…کوہ آدم
آج کے دورمیں کوہ آدم تک رسائی ابن بطوطہ کے زمانے کی نسبت اتنی مشکل نہ ہے تاہم پھر بھی یہ سفرخاصہ کٹھن اوردشوارگزارہے
یوں دنیا بھر میں سیاحت کے بے شمار پرکشش مقامات موجود ہیں لیکن سری لنکا کے بلند اور دشوار گزار پہاڑی پر موجود ایک سیاحتی مقام جسے کوہ آدم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے دنیا کا منفرد ترین مقام ہے۔اس کی تفصیل میں نے پہلی بار زمانہ طالب علمی میں نامور سیاح ابن بطوطہ کے سفر نامے میں پڑھی۔کچھ عرصہ پہلے میں جب سری لنکا گیا تو اس مقام کی سیاحت کا عزم بھی کیا کیا۔
سات ہزار تین سو فٹ بلند یہ چوٹی سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے 220کلو میڑ کے فاصلے پر ہے۔ سری لنکا کے ضلع رتنا پور میں واقع اس چوٹی تک پہنچنے کے لیے کولمبو سے کینڈی اور پھر ڈلہوزی آنا پڑتا ہے۔کو ہ آدم پر واقعے نقش پا کے مقام تک پہنچنے کے لیے کٹھن راستے میں کئی آرام گاہیں بنائی گئی ہیں۔اکثر زائرین یہ سفر رات کے وقت کرتے ہیں ۔ زائرین اپنے اپنے اعتقادات کے مطابق فجر اور طلوع آفتاب کے وقت یہاں عبادت کرتے ہیں ۔بدھ مت کے پیروکار طلوع آفتاب کے وقت "سادھو، سادھو" کا ورد کرتے ہیں۔
اس پہاڑی چوٹی پر ایک پائوں کا نشان ہے۔ جسے حضرت آدم علیہ السلام کے نقش پا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس پہاڑی کو" آدم کی چوٹی" یا" کوہ آدم" کا نام دیا جاتا ہے۔ اس چوٹی میں ایک گڑھا بنا ہوا ہے جو پانچ فٹ سات انچ لمبا اور دو فٹ سات انچ چوڑا ہے۔اس گڑھے میں دائیں پائوں کا نقش ہے۔ اس پائوں کے نقش کی لمبائی اور چوڑائی سے کسی بھی انسان کے جسم کے قد کااندازہ 35فٹ لگایا گیا ہے۔
مسلمانوں کے نزدیک یہ نقش پا حضرت آدم علیہ السلام کا ہے۔ بدھ مت کے مطابق یہ نشان بدھا کے پائوں کا ہے اور ہندئووں کے دھرم کے مطابق یہ نقش سیوا جی JI " "SIVA کا ہے۔آج کے جدید مواصلاتی دور میں بھی یہاں تک پہنچنے کے لیے کم از کم چار گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔مقامی زبان میں اس پہاڑی کو سری پاڈا ــ"SRI PADA"کہا جاتا ہے اور انگریز اسے "آدم پیکADAM'S PEAK" کہتے ہیں۔ کوہ آدم کی پہاڑی سری لنکا کی دوسری بڑی چوٹی ہے۔اس پہاڑ کوـ" سراندیپ "بھی کہا جاتا ہے۔
زائرین اور سیاحوں کو یہاں تک پہنچنے کے لیے دشوار گزار راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ سکندر اعظم اور ابن بطوطہ نے بھی زیارت کے لیے یہاں کا سفر کیا۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں اس کا ذکر انتہائی دلچسپ پیرائے میں کیا ہے ۔ ابن بطوطہ کے مطابق کوہ آدم تک رسائی کے لیے زائر جس راستے سے گزر کر سراندیپ تک پہنچتا ہے اسے راستے میں ایسے خوشنما درخت ملتے ہیں جن کے پتے کبھی نہیں جھڑتے ۔پہاڑی سرخ گلاب کا پھول ہتھیلی کے برابر ہوتا ہے۔
اس پہاڑکے ذریعے قدم مبارک تک جانے کے دوراستے ہیں۔ایک کو بابا کا رستہ(حضرت آدم علیہ السلام) کہتے ہیں اور دوسرے کو ماما کا (حضرت حوا علیہ السلام کا راستہ )۔ماما کا راستہ آسان ہے۔ بابا کا رستہ بڑا دشوار گزار ہے اور اس پر چڑھنا نہایت مشکل ہے۔اس خطرناک ڈھلوان دار راستے پر زائرین کی سہولت کے لیے پہاڑ تراش کر سیڑھیاں کھدوا ئی گئی ہیں۔ چشمے سے سات میل کے فاصلے پر غار خضر ہے یہ غار حضرت حضر علیہ السلام سے منسوب ہے۔ اس غار سے دو میل اوپر قدم کا نشان ہے۔یہ قدم باوا آدم کے پائوں کا نقش بتایا جاتا ہے۔یہ نقش ایک سخت سیاہ پتھر میں ہے ۔
7000فٹ کی بلندی تک پہنچنے کے لیے نو میل چڑھائی چڑھنی پڑتی ہے۔ چھ میل چڑھائی کے بعد اصلی چوٹی نظر آتی ہے ۔اس کے بعد چڑھائی اس طرح کی ہے کہ نیچے نہ دیکھیں اور سنبھل کر قدم رکھیں اس کے بعد ایک زینہ آتا ہے جو 40فٹ اونچا ہے ۔یہاں زمین اور سمندر کا نظارہ قابل دید ہے۔ اس کے پاس پہاڑ کا دروازہ ہے جسکو جبل سراندیپ کہتے ہیں۔بدھ مذہب کی سب سے پرانی کتاب مہاونس میں بھی اس قدم کا ذکر ہے۔
آج کے دور میں کوہ آدم تک رسائی ابن بطوطہ کے زمانے کی نسبت اتنی مشکل نہ ہے تا ہم پھر بھی یہ سفر خاصہ کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ سیاحوں اور زائرین کی سہولت کے لیے سلوپ دار پہاڑیوں پر سیڑھیاں بنا دی گئی ہیں۔ راستے میں ریفریشمنٹ کا انتظام بھی ہے پھر بھی یہ سفر آسان نہ ہے۔ خاص طور پر کو ہ آدم کے قریب اب بھی کمزور دل افراد ہمت ہار جاتے ہیں۔ سراندیپ میں واقع یہ نقش کس کا ہے؟ اس بحث میں جائے بغیر یہ جگہ قدرتی حسن اور بدلتے موسموں سے لطف اندوز ہونے والے افراد کے لیے خصوصی کشش رکھتی ہے۔ زندگی ، صحت اور وسائل اگر اجازت دیں تو سری لنکا کی اس پہاڑی تک کا سفر یقینی اعتبار سے کسی بھی انسان کے لیے ایک یادگار اور تاریخی حیثیت کا حامل ہے ۔