21 ویں صدی کا تیز رفتار دھارا
سب سے پہلے ہمیں خرد دشمنی کا رویہ ترک کرنا اور ہر مسئلے کو عقل و دانش کی کسوٹی پرپرکھنا ہوگا۔
مغرب کو جب عروج میسر آیا اور صنعتی انقلاب نے اس کے یہاں سائنسی سوچ اور ایجادات کے در کھولے' اس کے ساتھ ہی اس کے لکھنے والوں کے ذہنوں میں خیال و افکار کے نئے دریچے وا ہوئے۔ وہاں جب سائنسی کہانیوں کا جنم ہوا تو ابھی جہاز ایجاد نہیں ہوا تھا۔
انیسویں صدی کے آخر میں جولیس ورنز اور ایچ جی ویلز ایسے ادیب پیدا ہوچکے تھے جو خیالی کہانیوں کا ایک ایسا طلسم آباد کر رہے تھے جہاں سے ان کے سائنسدان بہت سی ایجادات کا سراغ پانے والے تھے۔
ایچ جی ویلز کے ناول پر بننے والی فلم'' وار آف دی ورلڈ'' ہماری نسل نے ٹی وی پر دیکھی ہے اور ہماری نئی نسل ''ہیری پورٹر'' کے سات ناول پڑھ رہی ہے اور ان ناولوں پر بننے والی فلمیں دیکھ رہی ہے جس میں ہر طرف جادو کا کارخانہ ہے جوکل سائنسی حقیقت بن جائے گا۔ یہ وہ فلمیں ہیں جنھیںدیکھنے کے لیے بڑے اور بچے سبھی بے قرار رہتے ہیں۔
بہت دنوں پہلے ایک کہانی پڑھی تھی جو کچھ یوں تھی کہ ایک شخص زندگی کے جھمیلوں اور زندگی کے جھنجھٹوں سے اس قدر تنگ آتا ہے کہ ایک روز دنیا ترک کردینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اپنے تھیلے میں چند جوڑے کپڑے اور تھوڑا سا ضروری سامان لے کر جنگل سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کی طرف نکل جاتا ہے۔ ہفتوں وہ پہاڑوں میںپھرتا رہتا ہے، پھلوں سے بھوک مٹاتا ہے اور رات کو کسی محفوظ غار' میں سوجاتا ہے۔ ایک رات حسب معمول وہ کسی غار میں پناہ لیتا ہے اور گہری نیند سوجاتا ہے۔
اسی رات اس دنیا میں جسے وہ ترک کر آیا تھا، ایٹمی جنگ چھڑ جاتی ہے اور خوش فضا و دلربا دنیا چشم زدن میں راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہے۔ اس شخص کو خبر بھی نہیں ہوتی اور ساری دنیا اس میں سانس لینے والے انسان ، چرند اور پرند ، خونخوار اور فرمانبردار جانور سب ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ جنگل جل جاتے ہیں اور چراگاہیں جھلس جاتی ہیں۔ ایٹمی اثرات غار کے اندر کی فضا کو مسموم تو نہیں کرتے پھر بھی جانے کن غیر مرئی اثرات کے تحت اس شخص کی نیند واشنگٹن اردنگ کے کردار ''رپ وان ونکل'' کی طرح دو دہائیوں پر پھیل جاتی ہے۔
وہ جب اپنی بیس برس کی طویل نیند سے جاگتا ہے اور غار سے باہر آتا ہے تو اس کی نگاہوں کے سامنے مردہ زمین ہے اور خاموش آسمان ہے۔ پہلے تو وہ عالم بیداری کو خواب سمجھتا ہے پھر جب اسے یقین آتا ہے کہ وہ خواب نہیں دیکھ رہا تو عالم وحشت میںوہ کسی انسان کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔
اسے یاد آتا ہے کہ وہ انسانوں سے اتنا تنگ آچکا تھا کہ اس نے دنیا ترک کردی تھی اور اب اپنے جیسے کسی انسان کی صورت دیکھنے کے لیے ، اس کی آواز سننے کے لیے ترس رہا ہے۔ اس کی داڑھی برسوں میں جھاڑ جھنکاڑ ہوچکی ہے، بدن کے کپڑے گل کر اور تار تار ہوکر غار میں ہی رہ گئے ہیں ، موسم کی سختیاں جھیلتا ہوا ، راستے میں ملنے والے آلودہ ندی نالوں سے پیاس بجھاتا ہوا اور کسی نیم زندہ پیڑ کے پھل سے بھوک مٹاتا ہوا وہ سیکڑوں میل کا سفر کرتا ہے۔
اس کا مسئلہ زندگی کی تلاش ہے ، وہ کسی دوسرے انسان کی آواز کے لیے اور اپنی بات اسے سنانے کے لیے ترستا ہے۔ کلام کرنے کی خواہش سے اس کی زبان اینٹھنے لگتی ہے۔وہ چیختا چلاتا چلتا رہتا ہے ،کبھی وہ گاتا اور گنگناتا ہے کہ شاید اس جیسا کوئی اور بھی ہو جو اس کی آواز سن کر کسی پیڑ کے پیچھے سے نکل آئے۔ کوئی پرندہ ہی مل جائے' کوئی طوطا جس سے وہ '' میاں مٹھو چوری کھائو گے'' کہہ سکے اور جواب میں اس کی ٹائیں ٹائیں سن سکے۔
ان گنت دن اسی طرح گزر جاتے ہیں آہستہ آہستہ اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے تو ایک بستی کے کھنڈر سے گزرتے ہوئے اسے ایک ثابت وسالم آئینہ نظر آتا ہے۔ وہ دیوانوں کی طرح لپک کراس آئینے کو اٹھا لیتا ہے اور جب اس میں اسے اپنی صورت نظر آتی ہے تو ذہن واہموں کا کھیل کھیلتا ہے۔ وہ اس میں نظر آنے والے عکس کو دوسرا انسان سمجھتا ہے اور اس سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ خود ہی سوال کرتا ہے ، خود ہی سوال کا جواب دیتا ہے اور خوشی سے ناچنے لگتا ہے کہ آخر کار اسے ایک ہم نفس اور ہم زبان مل ہی گیا۔ جس طرح اس کہانی کا کردار اپنے آپ کو اس کرہ ارض پر تنہا محسوس کرکے دوسرے انسان کی تلاش میں نکل کھڑاہوا تھا اسی طرح بہت دنوں سے انسان کو اس نظام شمسی میں اپنی تنہائی ستانے لگی ہے۔
'' سائنس فکشن'' کی تقریباً ہر کہانی اور ہر فلم میں اس نے یہی خواب دیکھا ہے کہ دوسری دنیائیں موجود ہیں جہاں انسان جیسی ذہانت رکھنے والی یا اس سے کمتریا برتر ذہن رکھنے والی مخلوق وجود رکھتی ہے۔ ان کہانیوں کا انسان اپنے خلائی جہازوں میں بیٹھ کر دوسری کہکشائوں کی سمت نکل جاتا ہے اور مختلف سیاروں کی مخلوق سے نبرد آزما ہوتا ہے۔
تاہم یہ سب کہانیاں ہیں اورکہانیوں سے سائنسدانوں کی تشفی نہیں ہوسکتی ، یہی وجہ ہے ہیئت دانوں اور خلائی سائنسدانوںنے کئی دہائیوں پہلے نظام شمسی میں کسی ذہین مخلوق کی تلاش شروع کردی تھی پھر جب '' کولمبس ڈے'' یعنی کولمبس کے امریکا دریافت کرنے کے پانچ سو برس مکمل ہوئے تو اس تلاش میں کچھ اور تیزی آگئی۔ 98 فٹ قطر کا ایک ایسا ٹیلی اسکوپ بنایا گیا جس کے ذریعے کائنات کی وسعتوں تک انسان کی رسائی ممکن ہوگئی۔ اس ٹیلی اسکوپ میں استعمال ہونے والے الیکٹرک آلات ایک سیکنڈ میں ریاضی کے دس کروڑ حسابات لگا سکتے ہیں۔ یہ آلات ایک وقت میں دس لاکھ ریڈیو فریکوینسیوں کو کھنگالتے ہوئے ہمہ وقت کام کرتے ہیں ، لیکن سائنسدانوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔
ہرگزرتے ہوئے دن کے ساتھ ان کی یہ تلاش وسعت اختیارکرگئی۔ ان کاکہنا ہے کہ ہماری طرح کی اگر کوئی ذہین مخلوق نظام شمسی یا قریب ترین کہکشائوں میں موجود ہے اور وہ بھی ہم جتنی یا ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے تو وہ بھی ہماری طرح کائنات میں اپنے نئے ساتھیوں کو ڈھونڈنے کے لیے بے تاب ہوگی اور جس طرح ہم بسیط کائنات میں مختلف ریڈیو سگنل بھیجتے رہتے ہیں ، اسی طرح وہ بھی ہم سے رابطے کے لیے اور ہمیں اپنی موجودگی سے با خبر رکھنے کے لیے ریڈیو سگنل روانہ کررہی ہوگی۔ اصل مسئلہ اس ''سگنل'' اور پھراس مقامِ ترسیل کا پتہ چلانے کا ہے۔
کہانیوں میں اور افسانوں میں انسان دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش میں کامیاب رہا ہے اور اس نے خلائی مخلوق اور انسانوں سے محبت اور نفرت کی ، صلح اور جنگ کی ، مہم جوئی کی ہزار ہا کہانیاںلکھی ہیں لیکن اب اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ نظام شمسی یا قریبی کہکشائوں میں اپنے کسی ہم سر کو ڈھونڈے ، کسی سیارے پر کوئی ایسی ذہن مخلوق نکل آئے جس کے سامنے وہ اپنی ایجادات و مصنوعات پر اترا سکے یا کوئی اس قدر ذہین نسل اسے مل جائے کہ جس کے سامنے وہ متعدد معاملات میں اپنے آپ کو عاجزجانے۔
اب سے سیکڑوں برس پہلے مہم جو بحری جہاز میں بیٹھ کر نئی دنیائوں کی تلاش میں نکلتے تھے ، لیکن ہمارے عہد کے مہم جو نئی ذہانتوں اور نئی دنیائوں کی تلاش کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس تلاش کا کوئی خاتمہ نہیں اور جو یقیناً کولمبس اور واسکوڈی گاما کی مہموں سے کہیں زیادہ سنسنی خیز اور حیران کن ثابت ہوگی۔ شاید وہ دن ہماری زندگی میںہی طلوع ہوجائے جب ذرایع ابلاغ چیخ چیخ کر ہمیں یہ اطلاع دے رہے ہوںکہ انسان نے کائنات میں اپنے جیسی دوسری ذہن مخلوق دریافت کرلی ہے۔ یہ خبر ہمارے لیے خوشی کا باعث تو ہوگی اور کیوں نہ ہو کہ یہ انسانی ذہانتوں کا کمال ہوگا لیکن یہ ملال ہمارے دل سے نہ جائے گا کہ اس کام میں ہم اپنا حصہ نہ ڈال سکے۔
صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام مسلم ملکوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے آج کی دنیا میں ان کاکوئی قابل ذکر مقام نہیں ہے اور جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی اور سماجی تحقیق میں یہ ملک سب سے پیچھے ہیں؟ جب ہم ان عوامل کو جان پائیں گے تب ہی حالات میں بہتری کی کوئی صورت نکلے گی۔
سب سے پہلے ہمیں خرد دشمنی کا رویہ ترک کرنا اور ہر مسئلے کو عقل و دانش کی کسوٹی پرپرکھنا ہوگا۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو قبول کرنے کی روش اختیار کرنی ہوگی۔ اپنی ناکامیوں کی ذمے داری دوسروںپر ڈالنے اور ہر لمحہ کسی دشمن کی تلاش میں رہنے کی نفسیات سے جان چھڑانی ہوگی۔ یہ نہ کیا تو 21 ویں صدی کا تیز رفتار دھارا ہمارا سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔