رولز رائس
یہ سب کچھ تو امیر آدمیوں کے لیے ہے۔ تو غریب کدھر جائیں۔ لوگ بے روز گاری اور مفلسی سے تنگ ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔
چوہدری صاحب سے چند دن پہلے ملاقات ہوئی۔ زندگی سے بھرپور قہقہے اور ہر مجلس کی رونق۔ تقریباً ہر پارٹی کے سیاست دانوں سے ذاتی تعلق رکھنے کے باوجود سیاست سے حد درجہ دور۔
شائستگی سے بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ ملک دنیا کا سب سے بہترین خطہ ہے۔ یہاںدولت کمانا حد درجہ آسان ہے۔ مسائل بھی حد درجہ کم ہیں۔ کافی طویل باتیں کرتے رہے جو بہرحال میرے لیے کافی عجیب تھیں۔ بلکہ ان کی گفتگوکے متعدد حصوں سے سخت اختلاف بھی تھا۔ انھوںنے اپنی چالیس برس کی کاروباری زندگی میں اس سسٹم اور اس ملک میں رہتے ہوئے بے مثال ترقی کی ہے۔
اپنے بنائے ہوئے اصولوں اور قواعد کے تحت۔ چوہدری نے اپنی زندگی کا آغاز ایک مزدور کی حیثیت سے کیا تھا۔ اب وہ حد درجہ امیر آدمی ہیں۔ ان کی آپ بیتی دراصل اس معاشرے کے متعلق مکمل طور پر ایک کھلی کتاب ہے۔ زندگی کو اسی آنکھ سے دیکھتے ہیں جس طرح کی وہ ہے ۔ اس میں کسی فلسفے ' کسی روحانیت کا تڑکہ نہیں لگاتے۔ کہنے لگے' ہم میں سے اکثر لوگ صرف اور صرف تنقید کرنا جانتے ہیں۔
سسٹم پر ' سیاست دانوں پر' رشوت پر' بلکہ ہر چیز پر ۔ مگر ہر شخص اس نظام سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوتاہے۔ چوہدری کی کوئی بات پلے نہیں پڑی۔چہرہ دیکھ کر اس نے بھرپور قہقہہ لگایا۔ سوال کیا۔ کہ ہمارے معاشرے کا ''دماغ'' کس کو کہتے ہیں۔ سوچ کر جواب دیا کہ Opinion Makersکو' یعنی وہ لوگ جو اپنی تحریروں اور باتوں سے ان گنت لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔
چوہدری صاحب نے میرے جواب سے مکمل اختلاف کیا۔ کہا کہ ہمارے جیسا معاشرہ' ان لوگوں کی باتوں کا رتی برابر بھی نوٹس نہیں لیتا۔ ان کے تمام الفاظ بے معنی ہوتے ہیں۔ اور سب کو اس کا پتہ ہے۔ مسکرا کر کہنے لگے۔ کہ یہ کسی بھی حکومت کے خلاف صرف اس لیے لکھتے اور بولتے ہیں کہ کسی فریق سے بھرپور مالی فائدہ اٹھا سکیں۔ پانچ چھ جید میڈیا اکابرین کا نام لے کر کہا کہ یہ لوگ ہیں پچیس برس قبل سائیکل پر تھے۔ اور آج قیمتی گھروں اور پرتعیش گاڑیوں میں پھرتے ہیں۔ بزنس کلاس میں سفر کرتے ہیں۔
ذرا سوچو کہ انھوں نے کیا کام کیا ہے۔ میرے پاس اس خطرناک سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ان میں ایک آدمی کو تو میں نے لاہور شہر میں خستہ موٹر سائیکل پر خود دیکھا تھا۔ آج وہ مرسڈیز پر سفر کرتا ہے۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ ان لوگوں نے پاکستان کے موجودہ سسٹم سے اپنی پوری قیمت کامیابی سے وصول کی ہے۔ یہ جس فریق کی کھل کر مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ اندر خانے' اسی فریق سے ہر سہولت وصول کرنے کی سودے بازی کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ چوہدری صاحب نے بہرحال یہ بات بدل دی۔ کیونکہ اب میں چند لوگوں تک پہنچ چکا تھا۔
گفتگو جاری رہی۔ ویسے آج کل بتایا جا رہا ہے کہ بہت مہنگائی ہو چکی ہے۔ پھر جابجا 'بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور کیسے اور کیونکرکھل رہے ہیں۔ ان میں خریداری کے لیے آنے والے لوگ کبھی بھی کسی بھی چیز کا نرخ نہیں پوچھتے۔ کیوں ! اس لیے کہ لوگوں کے پاس پیسہ ہے۔ کیا آج تک کسی حکومتی عہدیدار نے ان عالیشان اسٹورز پر چھاپا مارا ہے۔ کیا واقعی وہاں حد درجہ مہنگی چیزیں فروخت نہیں کی جاتیں۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ چوہدری صاحب کہنے لگے۔ کہ لاہور میں وہ بھی اسٹورز کی ایک چین کے مالک ہیں۔ہر ماہ۔ اس شہر کے سو کے قریب بڑے لوگوں کو ان کی طرف سے مکمل ''گروسری'' بڑے آرام سے پہنچا دی جاتی ہے۔
کسی بھی ادائیگی کے بغیر۔ پھر انھوںنے کئی اہم لوگوں کو کارڈ دیے ہوئے ہیں۔ وہ خریداری کرنے کے بعد جب کارڈ دکھاتے ہیں تو ان سے کوئی پیسے وصول نہیں کیے جاتے۔ یہ صرف لاہور کی بات کر رہا ہوں۔تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں بالکل یہی معاملہ ہے۔ ویسے مجھے چوہدری صاحب کی باتوں پر بالکل یقین نہیں آیا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سیکڑوں لوگوں سے کوئی پیسے ہی نہ لیے جائیں۔ چوہدری صاحب نے اپنے فون پر فہرست دکھائی کہ ذرا دیکھویہ لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ نام پڑھ کر گھبرا گیا۔ کہ یہ تو ہمارے شہر کے ایماندار ترین افراد ہیں۔ نظام میں طاقت ور پوزیشن پر ہیں۔ مگر یہ تو ہر وقت اپنی پارسائی کی قسمیں کھاتے ہیں اور دوسروں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔
چوہدری صاحب نے زور کا قہقہہ لگایا ۔ ان کی ہنسی مجھے بہت بری سی لگی۔ کہنے لگے کہ یہ معاشرے کا اصل چہرہ ہے جسے لوگ جانتے بوجھتے ہوئے بھی زیر بحث نہیں لانا چاہتے۔ ہاں آج کل ہمارے ملک میں ایک گاڑی بہت مقبول ہو رہی ہے۔ وہ ہے رولز رائس۔ اس کی قیمت دس بارہ کروڑ کے قریب ہے۔ یہ بات سن کر چونک گیا۔ کیونکہ میرے کئی واقف لوگوں نے ان دو تین سالوں میں نئی رولز رائس خریدی ہے۔ یہ گاڑی اب لاہور میں عام نظر آتی ہے۔ باتیں جاری رہیں۔ غریب بھی پیچھے نہیں رہا۔ کل جس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
آج کم از کم موٹر سائیکل پر سوار تو ضرور ہو چکاہے۔ اب توصرف لاہور شہر میں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ شہر میں کتنے لاکھ موٹر سائیکلیں ہیں۔ یہ بات بالکل درست لگی۔ کیونکہ گھریلو ملازمین سے لے کر ہر عام آدمی نے کم از کم موٹر سائیکل ضرور رکھی ہوئی ہے۔ اب مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ چوہدری کی باتیں حقیقت میں درست ہیں ۔ مگر اتنی سچی اور تلخ باتیں سننا مشکل ہو جاتا ہے۔
میں تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو کروڑوں روپے چندہ دیتا ہوں۔ سب بڑے خلوص اور جعلی محبت سے اپنی اپنی پارٹی کے لیے چندہ وصول کرتے ہیں۔ کبھی کسی بھی سیاسی لیڈر نے انکار نہیں کیا۔ سب انتظار کرتے ہیں کہ میں انھیں ملوں اور پیسے دوں۔ کئی تو فرمائش کرتے ہیں کہ دیکھیے بینک میں جمع نہ کروائیں ویسے ہی کیش دے دیں۔ آپ کو تو علم ہے کہ میں نے کبھی ایک پیسے کی ہیرا پھیری نہیں کی۔ یہ پیسے تو صرف اپنی سیاسی پارٹی میں موجود باشعور امیدواروں اور غریب کارکنوں کی بھلائی کے لیے خرچ ہوتے ہیں۔
تھوڑے دن بعد معلوم ہوتا ہے کہ تمام رقم بڑے آرام سے ذاتی اکائونٹ میں منتقل ہوچکی ہے۔ ویسے اس پر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ حقیقت میں میرے کاروبار کے لیے بالکل درست ہے۔ چند ٹکے دے کر میرا کام کسی بھی حکومت میں نہیں رکتا۔ ویسے اب مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ چوہدری مبالغہ آرائی کر رہا ہے۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہمارے اتنے عظیم نظرآنے والے ''سیاسی اکابرین'' چندے پر چل رہے ہوں۔ ضرور چوہدری کو یا تو غلط فہمی ہوئی ہے یا وہ درست دماغی حالت میں نہیں ہے۔ ویسے یہ معاملہ صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں ہے۔
ریاستی اداروں میں بیٹھے ہوئے شخص بھی اپنی فیس بھرپور طریقے سے وصول کر رہے ہیں۔ طریقہ کار مختلف ہے۔ وہ منظم طریقے سے کام کرتے ہیں اور بالکل تنگ نہیں کرتے۔ طے شدہ پیسے پہنچ جائیں تو بڑی خوش اسلوبی سے کام ہو جاتا ہے۔ ہاں۔ ایک اور بات میں نے لندن اور نیویارک میں آرام دے رہائش گاہیں خرید رکھی ہیں۔اکابرین' اپنی آل اولاد کے ساتھ وہاں بالکل مفت ٹھہرتے ہیں۔ مزے کرتے ہیں۔ اورپھر واپس آ کر بڑی تندہی سے ملک و قوم کی عاجزانہ خدمت شروع کر دیتے ہیں۔ان کی اولاد کے بیرون ملک میں تعلیمی اخراجات' آنے جانے کا کرایہ اور شادی بیاہ تک کے اخراجات یہ خاکسار ادا کرتا ہے۔
ویسے چوہدری کی باتوں میں کافی پختگی تھی۔ بتانے لگا کہ ہمارا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک وہ جو سب کو نظر آتا ہے۔ سب اس پر مثبت یا منفی بات کر سکتے ہیں۔ اور دوسرا وہ جو کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہی دراصل ہمارا اصل معاشرہ ہے۔ یہی حقیقت ہے۔ معاشرے کے اس حصے میں ہر برائی بڑے آرام اور سلیقے سے کی جاتی ہے۔ وہاں کا سب سے بڑا اصول ہے کہ وہاں کا کوئی اصول نہیں ہے۔ کوئی قانون اور ضابطہ بھی نہیں ہے۔ ہاں ایک ان لکھا اصول ضرور ہے۔ کہ ہر کام '' ہر چیز'' ہر شے برائے فروخت ہے ۔ ہر عہدہ' ہر وزارت' ہر ترقی' ہر کام کروانے کی فیس ہے۔ اگر آپ ادا کر دیں تو انتہائی ایمانداری سے وہ کام ہو جاتا ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
سوال کیا ' کہ چوہدری صاحب' یہ سب کچھ تو امیر آدمیوں کے لیے ہے۔ تو غریب کدھر جائیں۔ لوگ بے روز گاری اور مفلسی سے تنگ ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ مفلوک الحال طبقہ تو برباد ہو چکا ہے۔ چوہدری نے قہقہہ لگاکر کہا' گزشتہ دو ہزار سال سے ہمارے خطے میں غریب کے ایک جیسے حالات ہیں۔ انھیں کبھی بھی' کوئی بھی بدل نہیں پائے گا۔ اس لیے کہ غریب کو مزید غریب رکھنے میں ہی' طاقتور طبقے کی بقاء ہے۔
ویسے بھی غریب کو یقین دلا دیا گیا ہے کہ تمہیں ہر نعمت مرنے کے بعد میسر ہو گی۔ تو اب شکایت کس بات کی۔ چوہدری صاحب کو باہر خدا حافظ کہنے گیا تو نئی رولز رائس گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ صرف چند دن بعد ' چوہدری صاحب نے فون پر بتایا کہ میں نے اپنی رولز رائس تحفے میں ایک پاکستانی اہم ترین شخص کو دے دی ہے۔ اب نئی گاڑی خرید رہا ہوں۔