صدر ممنون حسین پر ایک بہتان

آئین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ صدر مملکت ایسی کسی بھی سفارش وزیر اعظم کو واپس روانہ کر سکتے ہیں۔


فاروق عادل December 13, 2021
[email protected]

ایوان صدر میں دو جگہیں ایسی تھیں جو صدر ممنون حسین کو بہت خوش آئیں۔ ان میں ایک ریزیڈینسی کی اسٹڈی تھی۔ اسٹڈی میں میری ان سے لا تعداد ملاقاتیں رہیں۔ اہم تقاریر، خاص طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے نکات عام طور پر یہیں زیر بحث آئے۔

مختلف غیر ملکی دوروں کی تفصیلات اور حکمت عملی تیار ہوئی۔ سربراہ مملکت کی سطح کے دورے کی تیاری عام طور پر بہت وقت لیتی ہے۔ حالات حاضرہ، دو طرفہ تعلقات، اختلافات و اتفاقات اور ان دو انتہاؤں کے بیچ سے اُس درمیانی راستے کی تلاش جو ہرفریقین میں مزید قربت، ہم آہنگی اور محبت پیدا کر دے۔ آذربائیجان کے دورے کی یاد آتی ہے۔ ترکی کی طرح یہ بھی ایک ایسا ملک ہے جس کے باسی پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے ہیں۔

اس پس منظر میں یہ کوئی ایسا مشکل دورہ ہرگز نہیں تھا۔ پاکستان اپنے اس عزیز از جان دوست کو کیا پیش کرنے جا رہا تھا اور کیا کچھ ہمیں اُس دوست سے درکار تھا، سب طے پا چکا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اتنے پیارے اور اتنے قریبی دوست کے سربراہ مملکت کو تحفے میں کیا پیش کیا جائے۔ یہ سوال ممنون صاحب کے سامنے آیا تو لحظہ خاموشی کے بعد وہ مسکرائے اور کہا کہ لیدر پروڈکٹس۔

صدر مملکت کوئی بات کہہ دیں تو سوال جواب نہیں ہوتے، فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود ممنون صاحب نے اپنی تجویز کے پس پشت سوچ کا اظہار ضروری سمجھا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری لیڈر پروڈکس کا معیار بہت شاندار ہے۔ یہ چیزیں صرف میزبان کے ذوق پر ہی پورا نہیں اتریں گی بلکہ آذربائیجان کو چمڑے کی مصنوعات کی برآمد کا راستہ بھی ہموار کریں گی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ ہمارے برآمد کنندگان کے وہاں بڑے بامعنی روابط استوار ہو گئے۔

مجھے کل کی طرح یاد ہے، یہ واقعہ بھی اسی اسٹڈی میں پیش آیا تھا۔ریزیڈنسی کا یہ گوشہ شروع میں ایک مختصر الماری، درمیانی لمبائی چوڑائی کی ایک میز اور ایک کرسی پر مشتمل تھا۔ بعد میں کتابوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ریک بڑھتے گئے۔ اسی طرح ہم لوگوں سے یہاں مستقل ملاقات کی وجہ سے چند کرسیاں بھی منظر کا مستقل حصہ بن گئیں۔صدر صاحب یہاں فجر کے بعد قرآن کی تلاوت کیا کرتے۔

عشائیے کے بعد جب اہل خانہ ٹیلی ویژن دیکھتے یا ہلکی پھلکی گھریلو بات چیت میں مصروف ہوتے، وہ یہاں مطالعہ کرتے یا غور و فکر میں مشغول ہو جاتے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں بیٹھ کر انھوں نے مجھ سے دل کی باتیں کیں۔ اپنے مشاہدات میں شریک کیا، حتیٰ کہ مجھے بعض ذاتی اور خاندانی معاملات میں ایسے مشورے بھی دیے جنھوں نے میری زندگی کا دھارا بدل دیا۔یہ واقعہ بھی اسی اسٹڈی کا ہے۔ وہ عمرے کے سفر سے لوٹے تو کسی اہم معاملے میں ہدایات لینے کے لیے میں حاضر ہوا۔

سفر حجاز انسان میں ہمیشہ بڑی تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ یہ سفر نہ صرف خود انسان کی دلی کیفیات میں تبدیلی لاتا ہے بلکہ انسان یہ توقع بھی رکھتا ہے کہ دیگر زائرین بھی دنیا داری سے ناتا توڑ کر اپنے دل کو خالص کر لیں گے۔ اس سفر میں اُن کے ساتھ ایک عجب واقعہ پیش آیا۔ ان کا یہ سفر ایک مشہور مقدمے کے مجرم کی پھانسی کے بعد ہوا تھا۔ صدر صاحب نے دکھ کے ساتھ بتایا، یار، عجیب لوگ ہیں۔

نہ انھیں حکمتِ دین کی سمجھ ہوتی ہے اور نہ مقاماتِ مقدسہ کے آداب کا شعور۔ انھوں نے یہ بات کچھ ایسی سنجیدگی اور دکھ کے ساتھ کہی کہ تجسس بڑھ گیا۔ یہ کہہ کر وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر بتایا کہ روضہ مبارک پر حاضری سے لوٹتے ہوئے مسجد کے اندر کسی شخص نے انھیں دیکھ کر دور سے آواز لگائی کہ انھوں نے پھانسی کے حکم پر دستخط کیوں کیے؟ممنون صاحب نے بتایا کہ یہ آواز سن کر وہ رک گئے اور آوازہ کسنے والے کو مخاطب کر کے کہا کہ ''مجھے ان در و دیوار کی قسم، یہ دستخط میں نے دین کی تعلیمات کے عین مطابق کیے۔ ''

صدر صاحب نے بتایاکہ میرے اس جواب نے اس شخص کے چہرے پر سوالات کی سلوٹیں ڈال دیں۔ لہٰذا میں نے اسے نرمی سے سمجھایا کہ یہ اسلام ہی ہے جس نے انسانیت کو قانون کے احترام اور اسے ہاتھ میں نہ لینے کا درس دیا ہے۔ کسی کو خود ہی مجرم ٹھہرا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دینے کا تصور اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔

ممنون صاحب نے بتایا کہ پہلے اس شخص کے چہرے پر تناؤ تھا اور غصے کی تپش لیکن اُن کی گفتگو سننے کے بعد یہ شخص پرسکون ہو کر واپس لوٹ گیا۔اس واقعے کی یاد سیالکوٹ کے حالیہ سانحے سے تازہ ہوئی۔ اس سانحے کے بعد جب اس تکلیف دہ واقعے کی تفصیلات پر قومی سطح پر تبادلہ خیال شروع ہوا تو اسی دوران میں ایک انکشاف بھی ہوا۔

ایک حلقے کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ صدر ممنون حسین ایک خاص مجرم کی پھانسی کے خلاف تھے لیکن یہ میاں نواز شریف تھے جنھوں نے انھیں سزائے موت کے حکم نامے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ اس طرح کی بات بھی سامنے آئی کہ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے صدر ممنون حسین آب دیدہ ہو گئے۔کوئی ایسا دعویٰ کہ کسی شخصیت کی ملاقات صدر ممنون حسین سے ہوئی ہو اور ملاقات بھی ایسی جس میں ملاقاتی کے سامنے انھوں نے اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہو۔ ایسے کسی دعوے کے حق میں کوئی شہادت دستیاب نہیں ہے۔

پانچ برس تک صدر ممنون حسین کی معاونت کی ادائیگی کے دوران میں مجھے ان کے ساتھ ہونے والی کم و بیش ہر ملاقات کا علم ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بیشتر ملاقاتوں اور اجلاسوں میں؛ میں ذاتی طور پر شریک رہا۔کیوں کہ میری ذمے داریوںکی نوعیت ہی کچھ ایسی تھی۔ اس لیے میں پوری شرح صدر کے ساتھ ایسی کسی ملاقات کی تردید کر سکتا ہوں۔

بعض اوقات یادداشت ساتھ نہیں دیتی، اس لیے میں نے ایسی کسی ملاقات کے بارے اُن ذمے دارشخصیات سے بھی تصدیق کر لی ہے جن کی اجازت اور علم کے بغیرصدر مملکت سے کوئی ملاقات ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ بات ریکارڈ پر رہنی چاہیے کہ کوئی ایسے شخص صدر ممنون حسین سے کبھی نہیں ملے جن کے سامنے صدر ممنون نے اپنی مجبوری بیان کی ہو۔

جس پس منظر میں اس ملاقات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، اس کی قانونی پوزیشن بھی مشکوک ہے۔ وہ لوگ جو کئی دہائیوں تک کار سرکار کا انجن بنے رہے یا انھیں اس کا دعویٰ ہو، وہ یقینا جانتے ہوں گے کہ آٹھویں ترمیم کے بعد کسی مجرم کی سزائے موت پر عمل درآمد کے ہونے یا نہ ہونے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہرگز نہیں۔ سزائے موت اور اس جیسے دیگر معاملات رولز آف بزنس کے شیڈول 5 بی کے تحت ایڈوائس کیس ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ وزارت سے سفارش وزیر اعظم کے ذریعے صدر مملکت تک پہنچتی ہے جس پر ان کے دستخط محض ضابطے کی کارروائی ہیں۔

یہ درست ہے کہ آئین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ صدر مملکت ایسی کسی بھی سفارش وزیر اعظم کو واپس روانہ کر سکتے ہیں۔ ایوان صدر کی طرف سے کی جانے والی ایسی کارروائی کے بعد وزیر اعظم اگر اپنے رائے پر اصرار کرتے ہوئے وہی ایڈوائس ایوان صدرکو دوبارہ ارسال کر دیں تو آئین یہ کہتا ہے کہ سمری آیندہ پندرہ روز میںاز خود نافذ العمل ہو جائے گی۔ صدر مملکت اس پر دستخط کریں خواہ نہ کریں۔ اس قانونی پوزیشن کے بعد صدر ممنون حسین کے ساتھ اس قسم کی کسی ملاقات اور اس ملاقات کے ضمن میں بیان کی گئی تفصیلات میں کوئی وزن نہیں رہ جاتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں