پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نیا سیاسی نظام
کوشش کی گئی ہے کہ اختیارات بیوروکریسی کے مقابلے میں عوام کے منتخب نمایندوں کو زیادہ مل سکیں۔
پاکستان میں مضبوط ،خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل جمہوریت اور شفاف گورننس کے لیے سیاسی ، قانونی ، آئینی ضرورت کا تقاضہ کرتی ہے۔
جو بھی ریاست کا نظام مقامی حکومتوں کے نظام یا اختیارات کی نچلی سطح پرسیاسی ، انتظامی اور مالی خود مختاری کی نفی کرے گا تو اسے کسی بھی طور پر مکمل جمہوریت پر مبنی نظام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 1973 کے دستور کی شق 140-Aاور 32یا 7اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ جو بھی مقامی حکومتوں کا نظام لایا جائے گا وہ آئین کی روح کے منافی نہیں ہونا چاہیے۔
پنجاب میں نیا مقامی حکومتوں کا نظام نافذ ہوگیا ہے۔شہباز شریف کا مقامی حکومتوں کا ماڈل زیادہ تر صوبائی مرکزیت تک محدود تھا جس میں 55سے زیادہ اتھارٹیاں اور کمپنیاں موجود تھیں جو برا ہ راست وزیراعلیٰ یا صوبائی حکومت کے ماتحت تھیں۔جب کہ اس نظام میں پی ایچ اے ، ترقیاتی اتھارٹیاں ، واسا، ٹیپا ، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اور پارکنگ کمپنیاں بھی مقامی حکومتوں کے ماتحت کی گئی ہیں۔اسی طرح پانچ اہم صوبائی محکموں جن میں تعلیم خواندگی، رسمی تعلیم، پرائمری اور سیکنڈری صحت، بہبود آبادی، کھیل کے محکموں کو بھی مقامی حکومت کے ماتحت کیا گیا ہے ۔
اہم بات تحریک انصاف کی یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں پہلی بار پنجاب سمیت خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کے مقامی انتخابات میں میئر اور ڈپٹی میئر کے براہ راست انتخابات کا بڑا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ اس فیصلہ پر خود پی ٹی آئی میں تقسیم تھی مگر وزیر اعظم عمران خان اس نقطہ پر بضد تھے کہ یہ انتخابات براہ راست ووٹروں کی بنیاد پر ہوگا۔اس لیے ملک میں پہلی بار لوگوں کو سیاسی جماعتوں کی سطح پر ایک بڑا سیاسی دنگل میئر اور ڈپٹی میئر کے براہ راست انتخاب کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا۔
اسی طرح پنجاب میں کونسلرز کی سطح پر بھی مختص کی گئیں نشستیں جن میں مزدور ، کسان ، عورتیں، اقلیتیں ، نوجوان اور تاجر طبقہ کی نشستوں کا انتخاب بھی براہ راست ہی ہوگا۔ضلع سطح پر پہلی بار ملک میں معذور اور بزرگ افراد کی نمایندگی کو ممکن بنایا گیا ہے۔پورے پنجاب کے تمام ڈویژنل ہیڈ کواٹربشمول سیالکوٹ اور گوجرانوالہ شہر میٹروپولیٹن کارپوریشنز ہونگی جب کہ ان شہری علاقوں کے علاوہ وہاں ضلع کونسل ہونگی۔ البتہ لاہور کا پورا ضلع میٹروپولیٹن کارپوریشن ہوگا۔ لاہورکا سربراہ لارڈ میئر جب کہ دیگر شہروں کے سربراہ سٹی میئر ہونگے۔
پنجاب میں ابتدائی طور پر ویلج اور نیبر ہڈ کونسل کی سطح پر غیر جماعتی انتخابات کا فیصلہ کیا گیاتھا مگر اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پنجاب میں تمام سطحوں کا جماعتی بنیادوں پر انتخاب ہوگا ۔ یہ انتخابات پینل کی بنیادوں پر ہونگے اور اگر آزاد امیدوار حصہ لینا چاہتے ہیں تو ان کو بھی پینل کی طرز پر ہی انتخاب لڑنے کی اجازت ہوگی۔تحصیل کونسل،میونسپل کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیاں اور ٹاون کمیٹیوں کو ختم کرکے میٹرو پولیٹن کارپوریشنز اور ضلع کونسل جب کہ یونین کونسل کو ختم کرکے نیبرہڈ اور ویلج کونسل کا نظام لایا گیا ہے، جب کہ نچلی سطح پر ایک اور اہم ادارہ شہروں میں کمیونٹی کونسلزاور دیہاتوں میں پنچایت کونسلز قائم کی جائیں گی جن کی تعداد 9ارکان پر مشتمل ہوگی اور ان میں دو خواتین کی مخصوص نشستیں بھی ہونگی اور ان کونسلز کو نیبر ہڈ اورویلج کونسلز کے ارکان نامزد کریں گے۔ ان کو بھی نظام میں کافی اختیارات حاصل ہونگے۔
پہلی بار نیبر ہڈ اور ویلج کونسل کو صوبائی حکومت کی جانب سے براہ راست مالی وسائل دیے جائیں گے۔ کونسلرز کی سطح پر اختیارات کی واضح تقسیم کو نمایاں کیا گیا ہے ۔نیبر ہڈ اور ویلج کونسل کی سطح پر موجود تیرہ ارکان میں سے دو نشستیں عورتوں کے لیے جب کہ کمیونٹی اور پنچایت کی سطح پر دو نشستیں جب کہ ضلع سطح پر موجود میٹروپولیٹن کی سطح پر بھی عورتوں کی خاطر خواہ نمایندگی کو ممکن بنایا گیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر کی بھی قانونی حیثیت کو قبول کیا گیا ہے۔ مختلف فریقین جن میں میڈیا، سول سوسائٹی شامل ہے ان کو اس نظام میں نگرانی کے تناظر میں ابزرور کی حیثیت بھی دی گئی ہے تاکہ وہ بھی اس نظام کا حصہ بن سکیں۔ضلع سطح پر پہلی بار کابینہ کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں منتخب افراد مختلف پروفیشنل سطح کے افراد کو اپنی کابینہ میں شامل کرسکیں گے ۔
پنجاب میں 11میٹروپولیٹن ، 25ڈسٹرکٹ کونسل، 3433ویلج کونسل اور 2171نیبرہڈ کونسل ہونگی۔جب کہ کمیونٹی کونسل شہروں میں جب کہ پنچایت گاؤں کی سطح پر بڑی تعداد میںموجود ہونگی۔ ووٹرزنوجوان کونسلر کی عمر 18برس سے 32برس ہوگی جب کہ دیگر کونسلرزکے لیے عمر کی شرط 21برس ہوگی ۔میئر ، ڈپٹی میئر، نیبر ہڈ یا ویلج کونسل کے چیئرمین کی عمرکی حد 25برس جب کہ ان کے لیے تعلیمی شرط کے تحت انٹرمیڈیٹ ہونا لازمی ہوگا۔
طریقہ انتخاب میں متناسب نمایندگی کا اصول بھی اپنایاگیا ہے۔انتخابات دو مراحل میں ہونگے۔ پہلے مرحلے میں نیبرہڈ اور ویلج کونسلز جب کہ دوسرے مرحلے میں میٹرو پولیٹن اور ضلع کونسل کے انتخابات ہونگے۔ پنجاب میںمقامی حکومتوں کے انتخابات کو قانونی بنیادوں پر ایکٹرانک ووٹنگ مشین پر کروانے کا اعلان کیاگیا ہے۔ اگر یہ عمل پورے پنجاب کے انتخابات پر ممکن نہ ہوسکا تو کم ازکم اس بات کا امکان ہے کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ پر ہوسکتے ہیں ۔
کوشش کی گئی ہے کہ اختیارات بیوروکریسی کے مقابلے میں عوام کے منتخب نمایندوں کو زیادہ مل سکیں۔ اب اس نظام کو واقعی شفافیت کے ساتھ عمل درآمد کا حصہ بنادیا جائے تو خاطر خواہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ کیونکہ ہماری سیاست، جمہوریت اور گورننس سمیت عام آدمی کے مفادات کو یقینی بنانے کے لیے مقامی حکومتوں خود مختار نظام ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
پنجاب کی سطح پر اس نئے نظام کی تشکیل میں وزیر اعظم عمران خان سمیت پنجاب حکومت، وزیر بلدیات میاں محمود الرشید اور وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین جو اس نظا م کی مضبوطی کے بڑے حامیوں میں سمجھے جاتے ہیں کا اہم کردار ہے۔ چوہدری فواد حسین تو گلہ کرتے رہے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کی عدم توجہ کی وجہ سے مقامی نظام مستحکم ہونے کی بجائے کمزور رہا ہے ۔