عمران خان کی مثبت خواہشیں
عمران خان مذہبی انتہاپسندی کے سخت مخالف ہیں جو آر ایس ایس کو انتہا پسند جماعت سمجھتے ہیں۔
لاہور:
ہندوستان میں، ہم جس علاقے میں رہتے تھے وہاں ہندو، مسلمان بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ عوام کو راشن کارڈ پر راشن ملا کرتا تھا ہماری راشن کی دو دکانیں تھیں اور ملازمین میں دو ملازموں کا تعلق ہندو برادری سے تھا لیکن محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ ملازم ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
کیونکہ ان کا رویہ، رہن سہن عام انسانوں جیسا ہوتا تھا، ہمارے دو ملازمین اگرچہ برہمن تھے لیکن اپنے رویے اور زبان وغیرہ کے حوالے سے یہ دونوں انسان نظر آتے تھے۔ مذہبی یکجہتی کا عالم یہ تھا کہ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے اس کا اثر خریداروں پر بھی پڑتا تھا ان خریداروں میں بھی مذہبی فرق کے بجائے مذہبی یگانگت زیادہ تھی کسی حوالے سے بھی مذہبی تفریق نظر نہیں آتی تھی۔
ہندو خواتین میں چھوت چھات کا عنصر برائے نام تھا ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، ایک برتن میں پانی پیتے، دکانوں میں آنے والوں کا اس کلچر سے متاثر ہونا فطری تھا، ملازمین کے اہل و عیال بھی عصبیت سے آزاد تھے۔ عام طور پر دوپہر کا کھانا مل جل کر کھاتے تھے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے ہندو اس کلچر کے حامی تھے ، انتہا پسند نہیں تھے مذہب کے نام پر نفرت نہیں کرتے تھے یہ ایک ایسی خوبی تھی کہ اس سے گاہک بھی متاثر ہوتے تھے۔
خواتین میں مذہب کا اثر اتنا ہوتا تھا کہ خواتین بھرے مٹکوں کو اگر کسی مسلمان کا ہاتھ لگ جاتا تو سارا پانی پھینک دیا جاتا چند انتہا پسند ہندو البتہ ذات پات، دین دھرم کے نام پر نفرتیں پھیلانے کی کوشش کرتے لیکن ان کی بے ہودہ کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ ایک ملازم کا نام سنگھیا تھا یہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا تھا جیساکہ ہم نے بتایا ہندو خواتین میں مردوں کی نسبت مذہبی نفرت کم ہوتی تھی بلکہ صورتحال یہ تھی کہ ہم ان کے کچن میں بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اس حوالے سے ہماری دکان منفرد تھی۔
آج یہ بات ہمیں اس لیے یاد آئی کیونکہ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے امید ظاہر کی ہے کہ بھارت میں ایسی حکومت آئے جس سے ہم مذاکرات کرسکیں۔ پاکستان میں عام طور پر مذہبی کلچر کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور اس حوالے سے ہندو برادری زیادہ سخت رویہ رکھتی ہے۔
وزیر اعظم کی خواہشات بہت مثبت ہیں، عمران خان مذہبی انتہاپسندی کے سخت مخالف ہیں جو آر ایس ایس کو انتہا پسند جماعت سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں آر ایس ایس کے ہوتے ہوئے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے حوالے سے ہمارے اقدامات کو دنیا نے سراہا ہے ، عمران خان نے امید ظاہر کی کہ امریکا، چین سرد جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، عمران خان نے کہا دونوں ممالک میں فاصلے کم کرنے کی کوششیں کریں گے، سعودی عرب، ایران وغیرہ نے ہمارے کردار کو سراہا ہے۔
آلودگی ہماری دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، اس حوالے سے یہ ملک پاکستانی حکومت کے کردار کو سراہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بھارت کا مذہبی انتہا پسند طبقہ بھارتی عوام میں مذہبی منافرت پھیلاتا رہتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے جس کا ذکر ہم نے کیا ہے کہ ہندو برادری میں بھی لبرل خیال کے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور لبرل خیالات کے حامی ہیں۔
پاکستان میں بھی انتہا پسند طبقے موجود ہیں لیکن انھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں۔ عمران خان نے امید ظاہر کی ہے کہ چین اور امریکا سرد جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ آلودگی کے خلاف بھارت اور پاکستان مل کر کام کریں گے پاکستان میں بھی غربت بھارت سے کم نہیں، ہندوستان میں رہنے والے خواہ ان کا مذہب کوئی بھی ہو غربت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور مذہبی جذبات کو ہوا دینے میں مذہبی انتہا پسند اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے لیکن یہاں مذہبی انتہا پسندی میں وہ شدت نہیں جو بھارت کے ہندو طبقے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ عوام کو بلا تفریق مذہب و ملت ایک دوسرے کے قریب لانے کی مثبت کوشش ہے اور ہر غیر منافق شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسانوں میں محبت اور یگانگت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔