سانحہ اے پی ایس دکھ آج بھی تازہ ہے

آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے اندوہناک واقعے کے بارے میں سوچتے ہی روح کانپ جاتی ہے


احتشام بشیر December 17, 2021
16 دسمبر 2014 کا دن شاید ہی کبھی بھلایا جاسکے۔ (فوٹو: فائل)

RAWALPINDI/ ISLAMABAD: 16 دسمبر 2014 پاکستان کی تاریخ میں ایسا دن گزرا، جس روز انسانیت کے دشمنوں نے علم کی شمع روشن کرنے والے بچوں کو خون میں نہلادیا۔ 150 سے قریب ماؤں کی گودیں اجاڑ دی گئیں۔ اسکول جانے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آج ان پر کیا قیامت گزرنے والی ہے۔ جن ماؤں نے اپنے لخت جگر کو ناشتہ کراکر گھر سے رخصت کیا ہوگا، ان ماؤں کو کیا معلوم تھا کہ ان بچوں نے گھر زندہ واپس نہیں آنا۔ جب سفاک قاتل ان بچوں پر ظلم ڈھا رہے ہوں گے تو انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ انھیں کیوں مارا جارہا ہے۔

آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے اندوہناک واقعے کے بارے میں سوچتے ہی روح کانپ جاتی ہے، دل دہل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سانحہ اے پی ایس میں شہید بچوں کے والدین کو صبر عطا فرمائے۔ 7 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان بچوں کا غم اسی طرح تازہ ہے۔ آج بھی شہید بچوں کے والدین غم سے نڈھال ہیں۔ جب بھی ان کے بچوں کا ذکر ہوتا ہے ان کی آنکھیں تر ہوجاتی ہیں۔ ان والدین کا ایک لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب وہ اپنے بچوں کو یاد نہ کرتے ہوں۔

جب بھی دسمبر کا مہینہ شروع ہوتا ہے 16 دسمبر 2014 کے دن کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ اس روز معمول کے مطابق صبح 8 بجے گھر سے دفتر پہنچے اور اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ غالباً 10 بجے کے بعد ورسک روڈ پر پولیس مقابلے کی اطلاع موصول ہوئی۔ اسی خبر کی تلاش میں پولیس حکام اور ریسکیو ذرائع سے رابطے کرنے لگے لیکن کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ خبر کی تلاش میں کتنی بُری خبر ملنے والی ہے۔

جب بھی کسی دھماکے یا دہشت گردی کے واقعے کی اطلاع ملتی ہم لائیو کوریج کرنے والی گاڑی ڈی ایس این جی کو حرکت میں لاتے۔ معمول کے مطابق ہم نے ڈی ایس این جی گاڑی نکالی اور خبر کی تلاش میں تھے۔ معلوم ہوا کہ ورسک روڈ پر کسی اسکول میں دہشت گردوں کا حملہ ہوا ہے۔ لیکن یقین نہیں آرہا تھا اور سوچ بھی رہے تھے کہ اسکول پر دہشت گردوں کے حملوں کا کیا مقصد ہے؟ ایک ڈی ایس این جی ورسک روڈ اور دوسری ڈی ایس این جی اسپتال کی جانب بھیجی گئی۔ میں خود لیڈی ریڈنگ اسپتال اور میرے ساتھی اسکول کی جانب گئے۔ اسپتال پہنچے تو وہاں زخمی بچوں کو اسپتال لانے کا سلسلہ جاری تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسپتال میں زخمی بچوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ہم نے بچوں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ بچوں کے والدین، ان کے رشتے داروں کی تعداد بھی بڑھنے لگی۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال سمیت پورے شہر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ کچھ بچوں نے حوصلہ کرکے بتایا کہ آرمی پبلک اسکول میں مسلح افراد داخل ہوئے اور انہوں نے بچوں کو مارنا شروع کردیا۔

اسپتال میں آہوں اور سسکیوں کی آوازیں تھیں۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوف بڑھتا جارہا تھا۔ کوئی پولیس افسر، حکومتی عہدیدار کچھ بھی بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ ہم رپورٹنگ بھی اسپتال کی بتائی گئی تفیصلات کے مطابق کررہے تھے۔ کسی بھی غیر مصدقہ رپورٹنگ سے گریز کررہے تھے کیونکہ یہ بچوں کا معاملہ تھا۔ شہید بچوں کے جسد خاکی گھروں کو منتقل کرنے کےلیے تابوت لانا شروع کردیے گئے۔ اسپتال میں قیامت کے مناظر تھے۔ ہر کوئی غم سے نڈھال تھا۔ کوئی اپنے لخت جگر کی میت اٹھائے گھر کو چل رہا تھا تو کچھ والدین اپنے بچوں کی تلاش میں تھے۔ اللہ پاک ایسا دن پھر کبھی نہ دکھائے۔

اسپتال میں ہی رپورٹنگ میں مصروف تھے کہ دوپہر کے بعد اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک اسپتال پہنچے اور بچوں کی عیادت کے بعد انہوں نے میڈیا کو مکمل تفصیل سےآگاہ کیا۔ انہوں نے اطلاع دی کہ آرمی پبلک اسکول پر حملے میں شہید ہونے والے بچوں کی تعداد سو سے بڑھ گئی ہے۔ یہ خبر عالمی بریکنگ نیوز بن گئی۔ بین الاقوامی اور قومی میڈیا کے نمائندے پشاور پہنچ گئے اور پشاور عالمی خبروں کا مرکز بن گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کی قومی قیادت پشاور پہنچی اور گورنر ہاؤس پشاور میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔

افسوسناک سانحے کے بعد صرف پشاور ہی نہیں پورے ملک میں سوگ کا سماں تھا۔ تاریخ تو گزر جاتی ہے لیکن کچھ لمحات اور واقعات ایسے ہوتے ہیں جو بھولنے والے نہیں ہوتے۔ اور ان میں سے ایک دن 16 دسمبر کا بھی ہے جو شاید ہی کبھی بھلایا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں