قانون سازی اور اپوزیشن کے تحفظات
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جب حکمراں قیادت کنفیوژن کا شکار ہو، درپیش مسائل کا درست ادراک نہ کرسکے
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جب حکمراں قیادت کنفیوژن کا شکار ہو، درپیش مسائل کا درست ادراک نہ کرسکے، فیصلہ سازی کی قوت سے عاری ہو،جرأت مندانہ اور ٹھوس قدم اٹھانے کا حوصلہ نہ رکھتی ہو۔ سنجیدگی، بصیرت، دور اندیشی اور تدبیر کا مظاہرہ کرنے سے گریز کرے اور عوام کو ان کے بنیادی آئینی حقوق کی فراہمی میں ناکام رہے تو ملک اور قوم کو درپیش مسائل مزید پیچیدہ، سنگین تر اورگمبھیر ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کے بطن سے نت نئے مسائل جنم لینے لگتے ہیں جس سے نہ صرف عوام الناس میں مایوسی، بے چینی اور اضطراب پھیلتا ہے بلکہ معاملات پر حکمرانوں کی گرفت بھی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ صورتحال جب اس قدر دگرگوں ہوجائے اور حکومتی رٹ کسی بھی سطح پر نظر نہ آ رہی ہو تو پھر حالات حاضرہ حکمرانوں کو اس تنگ گلی تک لے جاتے ہیں جس کے دوسری جانب موجود موقع پرست اور طالع آزما قوتیں معاملات کو اپنے ''کنٹرول'' میں لے لیتی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت بھی کچھ ایسی ہی کنفیوژن کا شکار ہے جس کے باعث ملک میں امن و امان کی بدترین صورتحال سے لے کر عام آدمی کے مسائل تک حکومتی کارکردگی پر پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں تنقید کی جا رہی ہے۔ کراچی جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی مرکز ہے ایک عرصے سے امن وسکون کو ترس رہا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کے حامل اس بین الاقوامی روشنیوں کے شہر میں خوف اور دہشت کے اندھیروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ روزانہ 8/10 افراد کی نعشیں گرنا معمول بنتا جا رہا ہے لوگ شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا حکومت کی آئینی ذمے داری ہے اور اس حوالے سے عوام کے منتخب نمایندوں کی مشاورت سے قانون سازی کرنا اور ان پر پوری سنجیدگی سے عملدرآمد کرنا حکومت کے فرائض منصبی میں شامل ہے اس ضمن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے موثر کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جہاں عوام کے منتخب نمایندوں کی مشاورت سے حکومتی امور چلانے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔ پیش کردہ تجاویز و مجوزہ قوانین پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے اور پھر اتفاق رائے سے کسی بھی قرارداد، بلز، ترامیم، قانون اور تجاویز وغیرہ کی منظوری دی جاتی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن کا کردار حکومت پر ''نگراں'' کا ہوتا ہے جو حکومت کو اس کے اچھے کاموں میں تعاون فراہم کرتی ہے لیکن ملک و قوم اور مفاد عامہ کے حوالے سے حکومت کے غیر آئینی، غیر جمہوری، غیر ضروری اور ضرر رساں اقدامات پر نہ صرف اپنے تحفظات کا اظہار کرتی ہے بلکہ غلط کاموں سے حکومت کو روکنے اور عوامی مسائل پر اپنے درست آئینی کردار پر ڈٹ جانے کا حق بھی تھوڑا رکھتی ہے۔
دانش مندی کا تقاضہ اور جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ حکمراں طبقہ اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلے کسی بھی قانون کی منظوری و نفاذ کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ حکومت اپوزیشن کی رائے کا احترام کرے بلکہ ان کی مثبت تجاویز کا بھی خیر مقدم کیا جانا چاہیے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت جمہوریت کے اس حسن انتظام سے آگاہ نہیں ۔اس کی تازہ ترین مثال اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی میں انسداد دہشتگردی کے ترمیمی بل 2014 کی منظوری ہے۔ حکومت نے اس بل کو منظور کرانے میں غیرضروری عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے حکومتی رویے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایوان سے واک بھی کیا۔ حیرت انگیز طور پر اس قدر اہم بل کی منظوری اس وقت لی گئی جب ایوان میں وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر اور اہم اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر بھی ایوان میں موجود تھے جس سے حکومت کی نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار ناقابل فہم نہیں غالباً حکومت قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ اسی باعث اپوزیشن ارکان کی جانب سے محض ایک دن کی مہلت کی درخواست کو نظرانداز کرتے ہوئے حکومت نے عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا اور ترمیمی بل کو کثرت رائے سے منظور کرالیا تاہم قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت نے اکثریت کی بنیاد پر قومی اسمبلی سے انسداد دہشتگردی بل منظور کروایا ہے لیکن جب یہ سینیٹ میں جائے گا تو وہاں ہم اس کی منظوری نہیں ہونے دینگے۔ گویا حکومت کو ایوان بالا میں مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑیگا۔
حکومت نے تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس بھی سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کردیا ہے اور وہاں اپوزیشن کی جانب سے اس کی شدید مخالفت کا سامنا ہے اور ایوان بالا میں اپنی عددی کمتری کے باعث ترمیمی آرڈیننس کو اتفاق رائے سے منظور کروانا حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ مذکورہ آرڈیننس پر اپوزیشن کے شدید تحفظات ہیں پہلے اس ترمیمی آرڈیننس کی ''خوبیاں'' دیکھ لیجیے پھر غیرجانبداری سے فیصلہ کیجیے کہ اپوزیشن کے استدلال میں وزن ہے یا حکومت کے موقف میں جو اسی شکل میں اسے نافذ کرنے پر تلی بیٹھی ہے اس ترمیمی آرڈیننس کے تحت سیکیورٹی ادارے کسی بھی شخص کو کسی بھی جرم میں ملوث ہونے کے محض شبے کی بنیاد پر اٹھا سکتے ہیں اور لواحقین کو کوئی وجہ بتائے بغیر ہی 90 روز تک اپنی تحویل میں رکھ سکتے ہیں اس کے مجرم یا ملزم ہونے کا فیصلہ تو تین ماہ بعد کی بات ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت عدالت کسی بھی شہری کی شہریت بھی منسوخ کرسکتی ہے۔ حاکموں کے اجرا کیے گئے اس ترمیمی آرڈیننس کی سب سے اہم ''خوبی'' یہ ہے کہ سیکیورٹی اداروں کے اہلکار کسی بھی شخص کو مشکوک و مشتبہ سمجھ کر مزاحمت پر گولی مار سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اپوزیشن ارکان اور انسانی حقوق کے رہنماؤں نے اس حکومتی آرڈیننس پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کی معروف رہنما اور سماجی کارکن عاصمہ جیلانی نے اسے آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر رضا ربانی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آرڈیننس کو کالا قانون اور آئین سے کھلم کھلا تصادم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت تو عدالت میری شہریت ختم کرسکتی ہے، یہ کالا قانون ہے اور اسے رات کے اندھیرے میں جاری کیا گیا ہے موجودہ شکل میں اسے منظور نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ طالبان سے مذاکرات سے امن آسکتا ہے تو ہم خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ریاست کو اس قدر بے بس نہ کیا جائے کہ صورت حال کنٹرول میں نہ رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بھی حکومتیں مفاد عامہ کے خلاف ایسے آرڈیننس کا اجرا اور کالے قوانین بناتی رہی ہیں جو اپنی من مانیاں کرنے اور مخالف قوتوں اور سچ کی آواز دبانے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو سراسر غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر پارلیمانی طرز عمل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمراں قانون سازی کے تقاضوں اور نزاکتوں کو بھی سمجھیں، بنیادی انسانی حقوق اور آئینی شقوں کا احترام کریں، اپوزیشن کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور اور ان کے تحفظات دور کریں۔