منصفانہ انتخابی نظام ممکن ہوسکے گا
پاکستان کا انتخابی نظام ہمیشہ سے عدم شفافیت کا شکار رہا ہے
پاکستان کا انتخابی نظام ہمیشہ سے عدم شفافیت کا شکار رہا ہے۔ انتخابی سیاست میں دھاندلی، دھونس، دباؤ، تشدد، روپے پیسے اور سرکاری مشینری کا استعمال، ووٹروں اور انتخابی عملہ کو یرغمال بنانا ، اغوا کرنا ، ووٹوں کی گنتی میں تبدیلی،انتخابی باکس کو قبضہ میں لینا، نتائج کو قبول نہ کرنا جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔
ان ہی بنیادوں پر ہمارا انتخابی نظام اپنی بہتر ساکھ قائم نہیں کر سکا۔اگرچہ ہم نے کئی مواقعے پر انتخابی اصلاحات کا راستہ بھی اختیار کیا اور کئی اصلاحات بھی کی گئیں مگر نتیجہ مثبت نہیں آسکا۔انتخابی نظام میں عدم شفافیت فرد کی ذاتی حیثیت سے شروع ہوتی ہے اور سیاسی پارٹی،اس کی قیادت تک اس کی ذمے داری آتی ہے۔ کیونکہ ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں بھی انتخابی نظام میں جائز و ناجائزیعنی غیر قانونی اقدامات کو اپنے حق میں سمجھتی ہیں، اس لیے وہ بھی اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن جو ایک خود مختار ادارہ ہے اور جس کے پاس انتظامی اور قانونی اختیارات بھی بہت زیادہ ہیں خود بھی شفافیت کی بنیاد پر انتخابی نظام کو تشکیل دینے میں ناکام رہا ہے۔ جب الیکشن کمیشن اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین یا قواعد وضوابط پر سختی سے عملدرآمد نہیں کراسکتا تو شفاف انتخاب کیسے ممکن ہوگا۔
انتخابی امیدوار کھلے عام الیکشن رولز کی دھجیاں اڑاتے ہیں، اس پر خاموشی یا سمجھوتوں کی سیاست سے اصلاح کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ جرائم پیشہ افراد یا بری شہرت کے افراد جو دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر انتخابی سیاست کا حصہ بن کر اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتے ہیں کو کیسے روکا جائے۔ اگرچہ یہ مسئلہ محض الیکشن کمیشن تک ہی محدود نہیں بلکہ اصل مسئلہ خود سیاسی جماعتوں کا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں جرائم پیشہ افراد کی سیاسی سرپرستی کرتی ہیں ۔
انتخابی دھاندلی کی تاریخ بھی کافی بدنما ہے۔ کوئی بھی جماعت جو انتخاب ہارتی ہے وہ انتخابی نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس کے بقول ہمیں دھونس اور دھاندلی سے ہرایا گیا ہے۔ یہ سو چ اور فکر سیاسی محاذ تک ہی محدود نہیں بلکہ میڈیا سمیت سول سوسائٹی اور پڑھے لکھے افراد میں بھی موجود ہے ۔
آج کل حکومت ، حزب اختلاف سمیت مختلف طبقات میں 2023کے انتخابات کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کرانے کے حوالے سے سیاسی تقسیم نظر آتی ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی حمایت میں قانون سازی مکمل ہوگئی ہے اور اب حکومت بضد ہے کہ انتخابات اسی الیکٹرانک مشین کے تحت ہوں گے جب کہ الیکشن کمیشن کی ان معاملات پر سوچ مختلف ہے بلکہ اہم تحفظات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اگرچہ الیکٹرانک ووٹنگ پر انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے تین طرح کی مختلف کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔
لیکن کیا واقعی انتخاب 2023الیکٹرانک ووٹنگ پر ممکن ہوسکے گا یا یہ سارا عمل ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی کا شکار ہوجائے گا۔حکومت نے پنجاب میں مارچ یا اپریل2023کے مقامی حکومتوں کے انتخابات کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پنجاب میں قانون میں ترمیم بھی کی گئی ہے۔ اسلام آباد کے میئر کا انتخاب بھی اسی الیکٹرانک ووٹنگ پر کیا جارہا ہے جب کہ خیبر پختونخواکے دوسرے مرحلے میں بھی الیکٹرانک مشین سے میئر کے انتخاب کو کرانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ عام انتخابات سے قبل ایک منی مشق ہوگی جس کا مقصد الیکٹرانک مشین کی کارکردگی کو جانچ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔ لیکن پنجاب کا مقامی حکومتوں کا مکمل انتخاب الیکٹرانک ووٹنگ پر کرانے کا امکان کم ہے۔البتہ ممکن ہے کہ میئر کے انتخاب میں استعمال ہوسکے ۔
اصولی طور پر تو حکومت اور الیکشن کمیشن کو ایک دوسرے کے تعاون اور مشاورت کے ساتھ ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ تاثر بھی حکومت کے مفاد میں نہیں کہ حکومت زبردستی الیکٹرانک ووٹنگ قوم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ اب الیکٹرانک ووٹنگ ایک قانون ہے اور اسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے۔
اس لیے اگر ہم نے واقعی الیکٹرانک ووٹنگ پر جانا ہے تو دونوں اطراف سے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر مقابلہ بازی اور بداعتمادی پیدا کرنی ہے تو پھر واقعی 2023کا الیکٹرانک ووٹنگ کا عمل ممکن نہیں ہوگا۔ حزب اختلاف مجموعی طور پر الیکٹرانک ووٹنگ کے خلاف ہے۔حزب اختلاف کے بقول الیکشن کمیشن قدم بڑھاؤ ہم تمہار ے ساتھ ہیں،یعنی حزب اختلاف بھی اپنا حکومتی مخالفت کا سیاسی ایجنڈا الیکشن کمیشن کی وکٹ پر کھیل کر سیاست کرنا چاہتی ہے ۔
الیکٹرانک ووٹنگ جدید تقاضوں کے مطابق ہے۔ آج نہیں تو کل ہمیں اس کی طرف جانا ہے۔ اس لیے اس سے راہ فرار بھی درست نہیں بلکہ جو مسائل ہیں ان کو حل کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے۔اسی طرح اگر الیکٹرانک ووٹنگ پر انتخاب ہونا ہے تو یہ انتخاب موجودہ حکومت نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت نے کرانا ہے۔ اس لیے لگتا نہیں ہے کہ حکومت اس سے کوئی فائدہ اٹھا سکتی ہے بلکہ یہ عمل دونوں کے مفاد میں ہوسکتا ہے ۔
پاکستان کو منصفانہ اور شفاف انتخاب کی سیاست کی طرف بڑھنا ہے کیونکہ ہماری سیاست اور جمہوریت سمیت انتخابات کی ساکھ پر شفاف انتخابات ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا انتخابی نظام اپنی ساکھ قائم کرنے میں ناکام نظر آتا ہے ۔ ایک مسئلہ جو بڑی شدت سے پیش کیا جاتا ہے وہ سیاسی مداخلت کا ہے۔ اس کا بھی مقابلہ کرنا ہے تو علاج وہی منصفانہ اور شفاف انتخابی اصلاحات ہیں، کیونکہ شفاف اصلاحات اور اداروں کو مضبوط کرکے ہی مداخلت کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن سیاسی جماعتوں کاکردار بھی اہم ہے۔ کیونکہ اگر سیاسی جماعتیں جان بوجھ کر انتخابی عمل میں منفی ہتھکنڈوں کو برقرار رکھنا چاہتیں تو بات دوسری ہے۔
ہمیں اس بیانیہ سے باہر نکلنا ہوگا کہ اگر ہم انتخاب جیت جائیں تو انتخاب شفاف اور اگر ہار جائیں تو دھاندلی، یہ ہی بیانیہ ظاہر کرتا ہے کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے مقابلہ میں ہماری سیاسی قوتیں بھی ایسا انتخاب چاہتی ہیں جو ان کی سیاسی طاقت اور اقتدار کے کھیل کو یقینی بناسکیں۔ یہ ہی سوچ اور فکر ہمارا سیاسی المیہ بھی ہے اور منصفانہ انتخاب میں رکاوٹ بھی ۔