چند اہم واقعاتپاکستان کے لیے خطرات

آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے 1971کاسال پاکستان کے لیے بہت برا سال ثابت ہوا


عبد الحمید December 17, 2021
[email protected]

آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے 1971کاسال پاکستان کے لیے بہت برا سال ثابت ہوا۔ مارچ 1970 میں ہونے والے انتخابات کے ذریعے بننے والی قومی اسمبلی بوجوہ اپنا اجلاس منعقد نہ کر سکی۔

قومی مفادات کے مقابلے میںسیاسی ذاتی مفادات اور مصلحت پسندی نے سیاسی صورتحال بگاڑ دی جس کا بھارت نے فائدہ اُٹھایا اور سفارتی اور فوجی چالیں چل کر مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کے منصوبے کو کامیابی سے آگے بڑھایا۔اس نے پاکستان کے مخالف بنگالیوں کو مکتی باہنی کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے گوریلا تربیت دی اور ساتھ ہی نومبر میں اپنے فوجی دستوں کو ہماری سرحدوں کے اندر داخل کر دیا۔ 16 دسمبر 1971 کو مشرقی کمان کے سربراہ جنرل امیر عبداﷲ خان نیازی نے بھارتی کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

پاکستان کی تاریخ کا یہ منحوس ترین دن تھا جب عصر کے وقت یہ جانکاہ حادثہ رونما ہوا۔ہمارے بہادر اور نڈر فوجی جوانوں اور نوجوان افسروں نے بے پناہ بہادری کا مظاہرہ کیا لیکن اعلیٰ قیادت کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور فیصلوں کے سبب یہ قربانیاں رائیگاں گئیں۔ہمارے ایک شاعر نے ان افسوسناک واقعات اور دردناک حالات کو اپنے ایک شعر میں کچھ یوں بیان کیا۔

یہ نمازِ عصر کا وقت ہے گھڑی ہے شامِ زوال کی

یہ قیامتیں جو گزر گئیں،تھیں امانتیں کئی سال کی

پاکستان کی موجودہ ابتر معاشی صورتحال بہت بھیانک اندیشوں کو جنم دے رہی ہے۔سوویت یونین بھی پہلے معاشی لحاظ سے کولیپسCollapseہوا تھا اور پھر اس کے بطن سے کئی ممالک نے جنم لیا۔ دسمبر 1971 میں سقوطِ ڈھاکا کے وقت پاکستانی قوم کے اندر ابھی کچھ جان باقی تھی۔

اس رات جب پاکستانیوں کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو لوگ گھروں سے روتے پیٹتے اورعورتیں بین کرتیں باہر نکل آئیں۔لاہور کی ہر سڑک،ہر گلی ایسے افرادسے بھر گئی جو دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔پاکستان کا کوئی شہر،قصبہ اور گاؤں ایسا نہیں تھا جہاں سسکیوں کی آواز نہ آ رہی ہو۔لیکن ہم نے کچھ بھی تو نہیں سیکھا۔ پچاس سال بعد ہم بے حس ہو چکے ہیں۔ دیکھتے بھالتے گہری کھائی میں گرنے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو I.M.F کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔

ہماری معاشی خود مختاری چھنِ چکی ہے ۔ہم مان نہیں رہے لیکن تقریباً دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ہم پاکستانی عوام خود اپنی موت کے پروانے پر دستخط ثبت کر رہے ہیں اور کوئی آہ و بکاہ نہیں۔میں اپنے تمام پاکستانی بھائیوں سے دست بستہ درخواست کرتا ہوں کہ جاگیں اور بھیانک انجام سے بچنے کی کوشش کریں۔خدارا ہر لمحے قریب آتے بہت ہی برے وقت کو روکیں۔ہماری قوم بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہے۔ بس احساس کی ضرورت ہے۔

بیجنگ میں 4فروری2022سے24ویں سرمائی اولمپک گیمز منعقد ہونے جا رہی ہیں۔یہ کھیلیں 4فروری کو شروع ہو کر20 فروری کو اختتام پذیر ہوں گی۔یہ کھیلیںTogether for a shared futureکا ماٹو لیے ہو رہی ہیں۔ بیجنگ نیشنل اسٹیڈیم میں 4فروری کو ایک رنگا رنگ تقریب سے ان کھیلوں کا افتتاح ہونے جا رہا ہے۔یوں تو کھیلوں سے صحت مند جسم اور صحت مند ذہن بنتا ہے۔کھیلوں سے اسپورٹس مین اسپرٹ کو بڑھاوا ملتا ہے لیکن بین الاقوامی سیاست آج کل ایسے مقابلوں پر خاصی اثر انداز ہوتی ہے۔

چین اس وقت ہر میدان میں بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔پچھلے تیس سالوں میں چینی کیمونسٹ پارٹی نے اپنی بہترین معاشی پالیسیوں کے طفیل 80کروڑ سے زائدچینیوں کو خطِ غربت سے اوپر اٹھا دیا ہے۔امریکا سات آٹھ دہائیوں سے دنیا کا سب سے طاقتور ملک رہا ہے۔چند سال پہلے تک دنیا میں امریکی ایجنڈا چلتا تھا لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے۔امریکا یہ نہیں چاہتا کہ اس کا اثر و رسوخ کم ہو۔اس کی یہ خواہش کھیلوں کے میدان پر بھی اثر انداز ہو تی ہے۔ بیجنگ اولمپکس کو کوئی دو مہینے کے لگ بھگ رہ گئے ہیں اور اس موقعے پر امریکا نے ان کھیلوں کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔

امریکا موقف یہ ہے کہ چین ہانگ کانگ میں جمہوری قوتوں کو بزور کچلنے میں لگا ہوا ہے، ساتھ ہی چینی صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، اس لیے امریکا بیجنگ سرمائی اولمپکس میں شرکت نہیں کرے گا۔ آسٹریلیا،برطانیہ اور کینیڈا نے بھی بائیکاٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ کیا ان ممالک کے سفارتی بائیکاٹ سے یہ کھیلیں منفی طور پرمتاثر ہوں گی،اس کا جواب جلد ہی مل جائے گا۔

9اور 10دسمبر کو امریکی صدر جو بائیڈن نے دو روزہ جمہوری کانفرنس کا انعقاد کیا۔جس میں شرکت کے لیے 110 ممالک کو مدعو کیا گیا تھا جب کہ 83 ممالک کو غیر جمہوری قرار دے کر دعوت ہی نہیں دی گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ جن ممالک کو مدعو کیا گیا، ان میں اسرائیل جیسا دہشت گرد ملک اور کولمبیا جیسا انسانی حقوق کی کا دشمن ملک بھی شامل ہیں۔

بھارت نے کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔پورے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ اور ناروا سلوک ہو رہا ہے۔ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو شہری حقوق سے محروم کر کے تضحیک کا نشانہ بنایا ہوا ہے پھر بھی بھارت کو مدعو کر لیا گیا۔اس کانفرنس کو جمہوری عالمی کانفرنس کا نام دیا گیا حا لانکہ 83ممالک کو دعوت نامہ ہی جاری نہیں ہوا۔ اتنے زیادہ ممالک کی غیر موجودگی کے بعد یہ کانفرنس عالمی کیوںکر ہے۔ امریکا میں کالوں کو خصوصاً اور دوسرے غیر سفید فاموں کو ان کے شہری حقوق نہیں دیے جاتے۔ پھر بھی امریکا جمہوریت کاچیمپئین ہے۔

یہ کانفرنس اصل میں چین کو روکنے کی ایک کوشش ہے۔اس لیے اس سے قابلِ ذکر توقعات وابستہ نہیں کی گئیں۔امریکی عالمی قیادت کا خواب ٹوٹ رہا ہے اس لیے امریکا یورپی اور چند دوسرے ممالک کو یہ جھانسہ دے کر کہ وہ اکیلا دنیا کی قیادت نہیں چاہتا بلکہ وہ قیادت کو ان دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل بانٹ کر استعمال کرنا چاہتا ہے۔پاکستان کو کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا لیکن پاکستان نے بوجوہ شرکت سے معذرت کر لی۔

26 ستمبر کو پورے جرمنی میں وفاقی انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کے ذریعے دوسری عالمی جنگ کے بعد 20ویں جرمن پارلیمنٹBundestagکا انتخاب عمل میں لایا گیا۔2005سے انجیلا مرکل کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ مسلسل انتخابات جیت کر حکومت بنا رہی تھیں لیکن اس بار انھوں نے حصہ نہ لینے اور ازخود حکومت سے علیحدہ ہو نے کا اعلان کر دیا تھا۔ان انتخابات میں حکمران سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے پچھلے سولہ سالوں میں سب سے اچھی کارکردگی دکھائی اور پارلیمنٹ کے اندر سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔

گرین پارٹی اور F.D.P نے بھی پہلے سے بہتر کارکرگی دکھائی اور کنگ میکر کی حیثیت حاصل کر لی۔SDP, گرین پارٹی اور fdp کے درمیان اس سارے عرصے میں گفتگو ہوتی رہی۔آخرکار23نومبر کو تینوں پارٹیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہو گیا جس کی رُو سے SDPکے جناب Olaf Scholzکی قیادت میں حکومت بنانے کا فامولا طے پا گیا۔8 دسمبر کو پالیمنٹ کے اجلاس میں جناب اولف شولز اور ان کی کابینہ کی منظوری دی گئی۔اسی دن جرمنی کے صدر نے اولف شولز سے چانسلر کے عہدے کا حلف لیا۔اس طرح انجیلا مرکل کے شاندار سولہ سالہ ا قتدار کا سورج غروب ہو گیا۔

خوش قسمت ہیں وہ قومیں جن کو ایسے محبِ وطن،سمجھدار اور محنتی لیڈر ملتے ہیں۔جرمنی کے نئے چانسلر اولف شولز اس سے پہلے کئی حکومتی عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ان کو حکومت اور سیاست کا وسیع تجربہ ہے۔وہ انجیلا مرکل کے ساتھ ایک ٹرم کے لیے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں