یکساں نصاب اور بنیادی تعلیم

شعبۂ تعلیم کے حوالے سے کچھ قابل غور نکات اور تجاویز


ملک محبوب December 19, 2021
شعبۂ تعلیم کے حوالے سے کچھ قابل غور نکات اور تجاویز ۔ فوٹو : فائل

تعلیم کے معانی اور مفہوم کو بخوبی سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لفظEducatonکے ماخذ کی وضاحت کر دی جائے۔

Education لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی نشوونما کرنا، تربیت دینا اور پرورش کرنا ہیں۔ اسی طرح اردو میں لفظ ''تعلیم '' عربی لفظ ''علم'' سے مشتق ہے جس کے معنی جاننا، اور تجربے سے گزر کر آگاہی حاصل کرنا ہیں۔ اصطلاحی معنوں میں تعلیم سے مراد نئی نسلوں تک معاشرتی اقدار، ادب اور ثقافت کی منتقلی ہے۔ مسلم مفکرین تعلیم کے نزدیک تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے انسان کی شخصیت کی ہمہ پہلو کردار کی تربیت اور تشکیل ہو سکے۔

امام غزالی ؒ فرماتے ہیں تعلیم انسانی معاشرے کے بالغ ارکان کی وہ جدوجہد ہے جو آنے والی نسلوں کی نشوونما اور تشکیل زندگی کے نصب العین کے مطابق ہو۔

آپ نے احیاء العلوم میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان سفر فرما رہے تھے کہ آپ کی نظر ایک بدو لڑکے پر پڑی جو بھیڑ بکریاں چرا رہا تھا۔ آپؓ نے جائزہ لینے کی خاطر کہ اسلام کی روشنی اس بچے تک کس حد تک پہنچی ہے اُس لڑکے پاس چلے گئے اور اسے کہا کہ ان بکریوں میں سے ایک بکری منہ مانگے دام لے کر ہمارے حوالے کر دو، اُس لڑکے نے جواب دیا کہ یہ میری نہیں ہیں مالک کی ہیں۔ جائزہ کی خاطر آپؓ نے اُس سے کہا کہ کون سا مالک یہاں دیکھ رہا ہے آپ کئی بہانے بنا سکتے ہو۔

اس پر وہ لڑکا غصے میں بولا کہ اے شخص! میرا مالک نہیں دیکھ رہا لیکن وہ مالک تو دیکھ رہا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ خوش ہوئے اور اسے انعام سے نوازا اور رخصت ہو گئے۔ یہ ہے وہ ذہن جس کی تعمیر قرآن کرتا ہے۔

علامہ اقبال کے نزدیک تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو دین کی روشنی میں انسان کی طبعی قوتوں کی نشوونما کرے۔

قدیم مفکرینِ ِتعلیم مثلاً سقراط، ارسطو اور افلاطون کے خیالات بھی اس بارے میں کم و بیش یہی ہیں۔

چوںکہ نصاب حاضر تدریسی مواد کا نام ہے جس کو تعلیم کا دل کہا گیا ہے جو کہ قومی مقاصد تعلیم حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جس سے بچے کی زندگی اور شخصیت پر براہِ راست یا بالواسطہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے تدریسی پروگرام میں ایسے مضامین شامل کرنا ضروری ہے جو طلبہ کو ایسی معلومات، مہارتیں، عادات اور رویے اختیار کرنے میں مدد دیں جن کے ذریعے وہ نہ صرف روزمرہ زندگی کے مسائل حل کر سکیں بلکہ خاندان شہریت اور معاشی ضروریات کے تقاضے بھی پورے کر سکیں۔

اب سولہ اگست سے جناب وزیراعظم نے پرائمری درجہ تک یکساں نصابِ تعلیم نافذ کرنے کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے جو بتدریج اگلی جماعتوں تک پڑھایا جائے گا۔ پرائیویٹ پبلشرز کو بھی حکومتی پالیسی کے مطابق یکساں نصاب کی بنیاد پر NOC حاصل کرنے کے بعد کتابیں شائع کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے، جس سے مختلف ماہرین اپنے اپنے انداز سے کتابیں مرتب کریں گے۔ اور بقول شاعر

گُلہائے رنگ رنگ میں ہے زینت چمن کی
اے ذوق اِس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

جس سے بہتر سے بہتر انداز میں کتب سامنے آئیں گی کہ نصاب تو قومی امنگوں کے تحت بہتر سے بہتر ترتیب دیا جا سکتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم بطورِ والدین، اساتذہ اور معاشرہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اُن کی کردار سازی پر کتنی توجہ دیتے ہیں، تاکہ آئندہ نسل اعلیٰ اخلاق و کردار کا مظاہرہ عملی زندگی میں احسن طریقہ سے کر پائے۔

ہمیں خود بچوں کے سامنے اپنے قول و فعل معاملات اور اخلاق و کردار کا عملی نمونہ پیش کرنا ہو گا، کیوںکہ بقول اقبالؒ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

بہت سے ممالک میں نصاب پڑھانے کا بنیادی مقصد بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے آگے جا کر یہ بچے عملی زندگی میں معاشرے کے نہ صرف فعال رکن ہوتے ہیں بلکہ قومی مفاد پر کسی صورت میں سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں اُن کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ وہ اشیائے خورونوش میں ملاوٹ نہیں کرتے، چیزیں معیاری بناتے ہیں، قوانین کی پابندی اور احترام کرتے ہیں وغیرہ۔ اس لیے مناسب یہی ہو گا حکومتِ صرف اس بات کو یقینی بنائے کہ نصاب مرتب کرتے وقت دینِ اسلام اور نظریہ پاکستان کے متضاد کوئی مواد شامل نصاب نہ ہو اور وطنِ عزیز میں بسنے والے غیرمسلموں کے ساتھ اچھا رویہ رکھا جائے اور اُن کی عبادت گاہوں کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔

مسلمان طلباء/طالبات کے لیے درجہ بدرجہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار کو بہتر بنانے والے اسباق شامل ہوں اور غیرمسلم طلباء / طالبات کے لیے ہر درجے کے لیے ''اخلاقیات'' کی علیحدہ کتب ہوں تاکہ آئینِ پاکستان کے مطابق انسانی بنیادی حقوق پر بھی کوئی حرف نہ آئے۔

اصل مسئلہ عملی کردارسازی کا ہے گو کہ درسی کتب میں درج مواد اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن والدین کے ساتھ اساتذہ کی بھی یہ اہم ترین ذمے داری ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کریں کہ طلباء میں امانت، دیانت سچائی اور دیگر اچھے اوصاف اجاگر ہوں۔

جناب وزیراعظم کی یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ انگلش میڈیم اسکولوں کے بچے اپنی مزید تعلیم مکمل کرنے پر اچھے عہدے حاصل کر لیتے ہیں اور دینی مدرسوں اور عام اسکولوں کے بچے ایسے مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دراصل نجی انگلش میڈیم اسکولوں کے بھی فیس اور سہولیات کے لحاظ سے کئی درجے ہیں، مہنگے ترین اسکولوں میں زیادہ سہولیات ہوتی ہیں۔ بچوں کو ہم نصابی سرگرمیوں مثلاً کھیل کود، تقاریر، ٹیبلو وغیرہ کے بھر پور مواقع ملتے ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے کم زور بچوں کی کونسلنگ کی جاتی ہے لیکن عام نجی تعلیمی اداروں اور کئی گورنمنٹ اسکولوں میں ایسی سہولیات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اکثر اسکولوں میں کھیل کے میدان تک نہیں ہوتے، جب کہ ماہرین کے مطابق کھیل کود سے صلاحیتوں میں 30 فی صد اضافہ ہوتا ہے، مسابقت اور برداشت کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے اب زیادہ تر کھیل کے میدان ویران ہو رہے ہیں اور بچے لڑکپن سے ہی اسمارٹ فونز پر منفی سرگرمیوں میں اس حد تک ڈوب جاتے ہیں جس سے نوبالغ طلباء کے جذبات برانگیختہ ہوجاتے ہیں اور دماغ میں پاگل پن کی حد تک منفی خیالات حاوی ہونے کی وجہ سے معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر انہیں بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ اس لیے والدین، اساتذہ اور معاشرے کے افراد کو چاہیے کہ وہ مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ذریعہ تعلیم اردو یا انگلش کا مسئلہ اتنا اہم نہیں جتنا دیکھا دیکھی ہم لوگوں نے ضرورت سے زیادہ بنا یا ہے۔ دُنیا کے ماہرین تعلیم کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ وطن عزیز میں چوںکہ اُردو تمام صوبوں میں بہ آسانی سمجھی جاتی ہے اور انگریزی کو بطور مضمون پڑھایا جاسکتا ہے تاکہ بچے عام فہم زبان میں زیادہ آسانی سے پڑھا ہوا سمجھ بھی سکیں۔ چھٹی جماعت سے بے شک سائنس اور ریاضی انگلش میں کر دیے جائیں تاکہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بچوں کو آئندہ مشکلات نہ ہوں اور باقی مضمون اُردو میں ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی دنیا میں رابطہ کی زبان بن چکی ہے، لیکن ہمیں احساس کم تری سے نکلنا ہوگا کہ انگریزی کے بغیر تعلیمی ترقی ممکن نہیں۔ تعلیمی نظام میں اصل مسئلہ اسکولوں میں بہتر ماحول اور سہولیات کا ہے۔ تعلیم کے عمل میں بچّے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر بچّہ تنگ ماحول، کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں سے محروم رہے گا تو اس کی صلاحیتیں کیونکہ اجاگر ہوپائیں گی۔ پبلک سیکٹر میں کارکردگی دکھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ داخلے کیے جاتے ہیں یو ں ایک کلا س میں پچاس تک بچّوں پر اساتذہ کس طرح توجّہ دے پا سکیں گے۔

مزید برآں بہت سے اسکولوں میں پینے کے صاف پانی، واش رومز اور فرنیچر وغیرہ پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز میں تقریباً دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اُن کی تعلیم و تربیت کے لیے گورنمنٹ کے اسکولوں میں سہ پہر کمیونٹی (Community) اسکول شروع کیے جائیں جن کا دورانیہ دو گھنٹے تک ہو۔ ایسے اسکولوں میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین یا بے روزگار گریجویٹ لڑکے /لڑکیاں مناسب اعزازیے پر خدمات سرانجام دے کر ایسے بچوں کو بنیادی اردو، ریاضی اور انگلش ریڈنگ سکھائیں۔

اس کے ساتھ ٹیکنیکل Skill کا بھی اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں رٹا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق پانچویں کلاس کے کئی بچے دوسری جماعت کی اردو اور دو درجے کی تفریق، ضرب وغیرہ سے نابلد پائے گئے ہیں جو کہ ایک پریشان کُن بات ہے۔ اور انگلش میڈیم کی وجہ سے بچوں نے نوٹس رٹے ہوتے ہیں اور دوران امتحانات ہوُبہو جوابی کاپی پر لکھ کر نمبر حاصل کرلیتے ہیں، انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے کیا پڑھا اور سمجھا ہے، یہ کیفیت بھی پریشان کُن ہے۔ اور یوں ہم کوٹ پتلون والے نیم خواندہ یا ان پڑھ لوگ پیدا کر رہے ہیں۔ حکامِ بالا کو ان پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں