ہر عروج را زوال
زوال پذیر ہوئے ملکوں کی تاریخ پڑھیں تو صرف برطانیہ کی مثال لے لیں جس کے زیرِ تسلط انڈو پاک رہے۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان کے ٹیلیوژن ڈراموں کی گونج پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی تہلکا مچاتی تھی، پھر نریندر مودی جیسے حکمرانوں کی وجہ سے ان دو ہمسایہ ملکوں میں دوریوں کے ساتھ دشمنیوں نے جنم لے لیا۔
پاکستان کے بعد ہندوستان وہ ملک ہے جس میں بسنے والے مسلمانوں کی آبادی ہم سے چند کروڑ کم ہے لیکن ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک ہوتا ہے جو دونوں کے لیے نقصان اور تکلیف دہ ہے۔ اب دونوںکے ٹیلیوژن، ریڈیو کا بھی آپس میں بائیکاٹ ہے۔ جہاں تک غیر ملکی پروگراموں کا تعلق ہے ہمارے ٹیلی وژن زیادہ تر انگریزی پروگرام دکھاتے ہیں یاپھر ہمارے لوگ اسپورٹس کے پروگرام دیکھ کر دل بہلاتے ہیں البتہ اب کافی عرصہ سے اردو میں ڈب ہوئے ترکی ڈرامے بھی کافی مقبول ہیں۔ ایک ڈرامے میں کئی بار مولانا رومی کے شہر قونیا کا ذکر آتا ہے۔
ہمارے بے شمار لوگ استنبول سیاحت کے لیے جاتے ہیں لیکن وہاں تاریخی مقامات دیکھنے کے ساتھ مولانا رومی کے شہر قونیا میں دو دن ضرور گزارتے ہیں۔ ان کی آخری آرام گاہ میں پورا دن گزارتے اور وہاں ہر کمرے کی اسلامی اور تاریخی یادگاروں میںجاتے اور ہر کمرے میں کچھ وقت گزار کر مولانا کو یاد کرتے ہیں۔ مولانا رومی سے علامہ اقبال کو بھی بے حد عقیدت تھی جو مو لانا رومی کی رباعیات کے اردو تراجم میں نظر آتی ہے، اسی وجہ سے وہاں موجود قبروں میں ایک یادگار نشانی اقبال کی بھی تعمیر کی گئی ہے۔ مولانا رومی کی چند رباعیات کے اردو تراجم پڑھئے۔
''خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں،لیکن میں نے خدا کا پسندیدہ راستہ مخلوق سے محبت چُنا۔''
''بہت سے شیطان انسانوں کی صورت میں ہیں،پس ہر شخص کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دینا چاہیے۔''
'' میں نے ایسے انسان دیکھے جو بے لباس ہوتے اور ایسے لباس دیکھے ہیں جن میں انسان نہیں ہوتا۔''
''ماں باپ کے ساتھ آپ کا سلوک ایسی کہانی ہے جو لکھتے آپ ہیں لیکن آپ کی اولاد آپ کو پڑھ کے سناتی ہے۔''
خدا نے ہر عروج کا اختتام زوال پر ضرور کیا ہے۔ آپ بڑی بڑی بادشاہتوں کو دیکھ لیں۔ مصر کے فرعونوں کے قصے پڑھ لیں ،USSR کو ٹوٹ کر بکھرتے دیکھ لیں، سلطنت مغلیہ کے آخری بادشاہ کا انجام خود اس کی زبانی سنئے۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
بہت پرانی بات نہیں خود میں نے راولپنڈی کے سب سے بڑے ہوٹل میں آریا مہر کے ہزار سالہ جشن میں شرکت کی تھی جو تقریب دنیا کے ہر ملک میں شاہِ ایران کے حکم پر منعقد ہوئی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو بھی چند منٹ کے لیے اس میں شریک ہوئے تھے۔
عروج اور زوال ہی کے حوالے سے برطانیہ ذہن میں آتا ہے کہ سلطنت کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ دنیا کے کسی حصے پر برطانیہ کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت افریقہ کے 54 ، ایشیا کے 48، یورپ کے 44، لاطینی امریکا کے33، نارتھ امریکا کے 2 اور Oceania کے 14 ممالک تھے۔
عثمانی ترک سلطنت کا عروج شروع ہوا ،پھر انھوں نے تین براعظموں پر چھ سو سال تک حکومت کی۔ ان کا عروج بھی اسلام کے عروج کا دور تھا، پھر قانون ِ قدرت نے ان کی برائیوں کو آڑے ہا تھوں لیا، ان کا ایک قانون تھاکہ جو بھی اقتدار میں آکر تخت پر بیٹھ جائے وہ تمام ممکنہ Cadidates کا سر قلم کر دے، چاہے وہ تخت نشین کا بیٹا ہو، بھائی ہو، باپ ہو ، چچا ہو یا بھتیجا، اس طرح تمام وارثان تخت کو قبروں میں اتار دیا جاتا ۔ مذکورہ روایت کے نتیجے میں بے شمار شہزادے کم عمری اور جوانی میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ شہزادوں اور درباریوں کے جنازے محلات سے بر آمد ہوتے دیکھے جاتے ، اس قسم کے گھناونے اعمال کے نتیجے میں یہ عظیم سلطنت اور شاہی خاندان اپنے انجام کو پہنچے ۔
جس طرح ہر انسان کی زندگی میں عروج اور زوال آتا ہے اسی طرح تاریخ کا مطالع کریں تو بہت سے ملک کبھی بہت اوپر گئے۔ زوال پذیر ہوئے ملکوں کی تاریخ پڑھیں تو صرف برطانیہ کی مثال لے لیں جس کے زیرِ تسلط انڈو پاک رہے۔ برطانیہ کی حکومت کئی ممالک پر قائم رہی ،پھر وہ آزاد ہوتے رہے۔ دنیا کے کئی ممالک جن کا آج بڑا نام ہے غلامی کا عرصہ گزار کر آزاد ہوئے یہ مشیتِ ایزدی ہے اور اس کی حقیقت سے کسی انسان کو انکار نہیں ۔ عروج اور زوال کے واقعات سے تاریخ بھری ہوئی ہے اور یہ سلسلہ آنے والی صدیوں میں بھی چلتا رہے گا۔