یہ کیسی سیاست ہے

تحریک انصاف کی تبدیلی، سیاسی رواداری اور اخلاقیات کی باتیں پانی کا بلبلہ ثابت ہورہی ہیں


شاہد کاظمی December 20, 2021
پاکستان تحریک انصاف سے تبدیلی کی امیدیں دم توڑتی جارہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

لاہور: پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی سرکار سے باقی کسی شعبے میں تبدیلی کی امیدیں تو دم توڑتی جارہی ہیں لیکن سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سیاسی رواداری کی جس جہت کو متعارف کروانے کا سہرا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے سر سجانے کا برملا اعلان کرتی تھی، وہی نا صرف پاکستانی اشرافیہ کی خام خیالی ثابت ہوئی بلکہ اس حوالے سے عوام کو بھی چونا لگایا گیا۔

چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ چن چن کر بدزبانوں کا ٹولہ منتخب کیا گیا جو جھگڑا کرنے میں ماہر ہیں۔ اعداد و شمار کے بجائے تندو تیز بولنا عام روش ہے۔ تین سال گزر گئے اب بھی تمام خامیوں کا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ہی گرایا جاتا ہے۔ انتقامی سیاست نہ کرنے کا عہد تھا لیکن سوائے انتقامی سیاست کے کوئی رنگِ سیاست نظر ہی نہیں آرہا۔ منشور پر تین سال بعد کم و بیش پچاس فیصد تو عمل ہوجانا چاہیے تھا۔ کتنا عمل ہوا؟ سب کے سامنے ہے۔

کسی ایک اسکینڈل پر حکومت چھوڑنی تھی، کتنے اسکینڈل آئے لیکن جوں تک نہ رینگی۔ کابینہ مختصر ترین ہوگی، اعلانیہ کابینہ کا حجم ویب سائٹ پر ملاحظہ ہوسکتا ہے۔ ہمیشہ گلہ کیا جاتا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی نے باریاں لگائی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا وہ اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں اور اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آگئی تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ حالات آپ کے سامنے ہیں۔

دعویٰ کیا جاتا تھا کہ سیاسی طور پر ماحول یکسر تبدیل ہوجائے گا۔ کبھی امریکی انتخابات میں مباحثے کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں تو کبھی ایک اسکینڈل آنے پر یورپی حکومتوں کے مستعفی ہونے کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اور سائیکل پر دفتر آنا تو اب ایک ایسے ضرب المثل کی شکل اختیار کرچکا ہے، جو گلی محلوں کے بابوں کی جیسے بچے بالکے چھیڑ بنا لیتے ہیں، یہ مثال اب پاکستان تحریک انصاف کےلیے ویسے ہی چھیڑ بن چکی ہے۔

چن چن کر لوگوں کو نہ صرف نوازا گیا بلکہ ایسے سلوک حکومت میں کیا جانے لگا جیسے عوام سے کچھ خاص بدلا لیا جانا مقصود ہو۔ پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، غیر ملکیوں کا پاکستان ملازمتوں کےلیے عازم سفر ہونا، اوورسیز پاکستانیوں کو پیسے بھیجنا، حکومت پر سوال اٹھنے پر کرسیٔ اقتدار سے الگ ہوجانا، اور میں غلط کروں تو آپ نے مجھ سے سوال کرنا ہے، اور میں آپ کے سوال سنوں گا۔ گورنر ہاؤسز، وزیراعلیٰ کی رہائش گاہیں، وزیراعظم ہاؤس، اور نجانے کیا کیا عوامی مقامات میں تبدیل کرنے کے نعرے... غرضیکہ کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس نے عوام کی توجہ نہ سمیٹی ہو اور اب یہی عوام ہیں جو کفِ افسوس مل رہے ہیں کہ ہم نے ان دعوؤں کے کیسے سچ مان لیا؟

ہاں! ایک اچھی بات ضرور ہوئی کہ عوام کو پچھلے کرپٹ بھی اچھے لگنے لگے ہیں۔ اور یہی ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی۔ غلط رہے ہوں گے پچھلے حکمران، اس بات پر بحث مقصود ہی نہیں ہے، لیکن کباڑہ تو اس حکومت نے کردیا کہ جو غلط تھے ان کو ہی عوام کی نظرمیں اچھا بنادیا گیا ہے۔ اور دعوے ہیں کہ ہم ملک کی قسمت بدل دیں گے۔

تبدیلی سرکار نے ابھی بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے تھے، اس وقت ہی عرض کیا تھا کہ یہ سرکار اپنی مدت ختم ہونے پر یہ واویلا کرتی نظر آئے گی کہ ہمیں ایک موقع اور دیں پھر دیکھیے ہم کیا کر دکھاتے ہیں۔ اور اب ویسی ہی صورتحال ہے کہ حالات ویسے ہی پلٹا کھا رہے ہیں۔ اور بس کچھ دنوں بعد ہی یہ خبریں پڑھنے اور سننے کو ملیں گی کہ ہمیں ایک موقع اور دیں۔ جس طرح سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا تھا تو عرض کیا تھا کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا اور حکومت کے آخری دنوں میں اس منصوبے کا افتتاح فیس سیونگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بالکل ایسے ہی گرین لائن بس پراجیکٹ اور رنگ روڈ راولپنڈی جیسے منصوبے ایسے ہیں جو موجودہ تبدیلی سرکار اپنی فیس سیونگ کےلیے استعمال کرے گی۔ ورنہ جانتی موجودہ حکومت بھی ہے کہ اس میں یہ منصوبہ(راولپنڈی رنگ روڈ) مکمل کرنے کی کتنی صلاحیت اور فنڈز ہیں۔ اس منصوبے میں بھی کس کس نے کیا کیا سمیٹا ایک الگ داستان ہے۔

جس سیاسی رواداری اور اخلاقیات کی، باقی سب کچھ چھوڑ کر، امید کی جارہی تھی کہ ہوسکتا ہے تبدیلی سرکار اس میں ہی کوئی کارہائے نمایاں سر انجام دے دی گی، وہ بھی دیوانے کی بڑھک ہی ثابت ہوئی ہے۔ شہر وفاق کے پڑوس میں کچھ پنچھی تو اڑنے کو ویسے ہی بیتاب ہیں، تبدیلی سرکار کی رہی سہی ناؤ پی پی 206خانیوال جیسے حلقے ڈبو رہے ہیں۔

پی پی 206 کی نشست پاکستان مسلم لیگ نواز کے نشاط خان ڈاہا کی وفات کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ اور اس نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رانا محمد سلیم نے ن لیگ کا مقابلہ کیا تھا اور کم و بیش سینتالیس ہزار ووٹ بھی حاصل کیے تھے۔ لیکن ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے کرتا دھرتا مہان گروؤں نے نجانے کیا سوچا کہ یہاں پارٹی ٹکٹ نشاط ڈاہا مرحوم کی زوجہ کو ہی عنایت کردیا۔ جب کہ اس معاملے میں ن لیگ بھلا کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔ اس نے بھی ٹکٹ پاکستان تحریک انصاف کے سابق امیدوار رانا سلیم کو بخشا۔ مسئلہ یہاں ن لیگ کا اس لیے نہیں کہ انہیں تو ہم پاکستان تحریک انصاف کے دعوؤں کے ساتھ متفق ہوتے ہوئے غلط سمجھتے ہیں۔ اور وہ جو بھی کریں غلط شمار کیجیے۔ لیکن مسئلہ تو تبدیلی سرکار کا تھا۔ اور انہوں نے اپنے امیدوار تک تبدیل کرلیے۔ پھر کہاں گئیں وہ سیاسی روایات جن کا واویلا تبدیلی سرکار کیا کرتی تھی؟ اور کہاں گئے وہ سیاسی رویے جنہیں درست کرنے چلی تھی پاکستان تحریک انصاف کی سرکار؟ یہ کیسی سیاست ہے جو تبدیلی سرکار کررہی ہے؟ کیوں کہ یہ تو وہی پرانی روش ہے جو ہم برسوں سے دیکھ رہے تھے۔ تو پھر نیا کیا ہوا؟

جس طرح پاکستان تحریک انصاف کے باقی تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔ اسی طرح تبدیلی سرکار کے سیاسی میدان میں معاملات درست کرنے کی باتیں پانی کا بلبلہ ثابت ہورہی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہورہا ہے کہ تبدیلی سرکار کے سرخیل دفاع کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ کیوں کہ ہمارے ہاں یہ سیاسی روایت بھی اب تک تبدیل نہیں ہوسکی کہ پارٹی کے اندر سے مخالفانہ آواز بلند کرنے کی جرأت کوئی نہ کرسکے۔ اکبر ایس بابر اور جسٹس (ر) وجہیہ الدین احمد کا حال تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔ بہتی گنگنا تھی، ہاتھ دھو لیے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔