سفیر کتب
یقین نہیں آتا جو اپنے ذاتی خرچ پر اور اپنی زندگی کا قیمتی وقت صرف کرکے علم دوست لوگوں کی گراں قدر خدمت انجام دے رہاہے۔
کتابوں میں لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اینڈرائڈ موبائل فون، آن لائن گیمز اور پی ڈی ایف کتب کی وجہ سے لوگوں کا کتب خانوں میں جانا بہت حد تک کم ہو گیا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹیلی وژن ڈراموں نے کتابیں پڑھنے کے ذوق کو شدید طور پر متاثرکیا ہے۔ لوگوں کے پاس وقت کم ہے اور پیشہ ورانہ، خانگی و دیگر مصروفیات کی وجہ سے کتب بینی کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ بقول رئیس فروغ:
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم جس کے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
انگریزی کے ممتاز شاعر ولیم ورڈزورتھ نے اس مسئلے کا تجزیہ اپنی خوبصورت نظمThe World is too much with usمیں اپنے مخصوص انداز میں قدرے تفصیل سے کیا ہے۔ ایک اور انگریزی شاعر ڈبلیو ایچ ڈیویز (WH DAVIES) نے اپنی مختصر لیکن انتہائی متاثر کن نظم Leisure Theمیں ان الفاظ میں کیا ہے:
What is this life
Full of care
We have no time
To stand and stare
ترجمہ:
کتنی عجیب ہے یہ زندگی
تفکرات سے بھری ہوئی
دم بھر نہ ہم ٹھہر سکیں
لطف نہ کچھ اٹھا سکیں
ان حالات میں جب کہ فکر معاش سے مہلت نہیں ملتی، مطالعہ کتب کا روگ پالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ لکھنے والے جنون کی کیفیت میں لکھ رہے ہیں اور شایع کرنے والے اشاعت کیے جا رہے ہیں اور اہل ذوق کمر توڑ گرانی کے باوجود کتابیں خرید کر پڑھے جا رہے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے ذوق مطالعہ بھی ایک قسم کا نشہ ہے جس کے حوالے سے یہ قطعہ ملاحظہ فرمائیے:
کون کہتا ہے میں نہیں پیتا
بے دھڑک بے حساب پیتا ہوں
علم نوشی کی لت پرانی ہے
میں شراب کتاب پیتا ہوں
ایسے نا مساعد حالات میں کتابیں حاصل کرنا اور اس کے بعد انھیں بلا معاوضہ اہل ذوق میں تقسیم کرنا علمی جہاد کے علاوہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔ ایسے انسان کے حوالے سے بس یہی کہا جا سکتا ہے:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
صوفی محمد مقصود حسین قادری نوشاہی اویسی کا شمار ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپکی ولادت 12 مئی 1956کو مدینۃ الاولیاء ملتان میں ہوئی۔ آپ کے اجداد کا تعلق ہندوستان کے شہر ہوشیار پور سے ہے۔ ابتدائی تعلیم اور ختم قرآن پاک کی سعادت ملتان سے حاصل کی۔ 1965میں کراچی آ گئے۔ انٹرمیڈیٹ اسلامیہ کالج کراچی سے کیا۔
آپ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی سمیت متعدد علمی و تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں۔ قادری اور نوشاہی سلسلے میں بیعت ہیں۔ آپ نے جن علماء کرام سے فیض حاصل کیا ان میں مرشد کریم حضرت مولوی محمد صدیق قادری نوشاہی، علامہ عبد الحکیم شرف قادری، ابو محمد شاہ سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد، علامہ ابو داؤد حاجی محمد صادق (گوجرانوالہ) اور علامہ مفتی جمیل احمد نعیمی ضیائی جیسے جید علماء کرام کے نام شامل ہیں۔
شان بے نیازی کا عالم یہ ہے
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
آپ کو متعدد انعامات اور اعزازات مل چکے ہیں جن میں پنجتن پاک ایوارڈ 2007 (مریدکے) اور امیر خسرو ایوارڈ 2016 شامل ہیں۔ علامہ مفتی محمد اطہر نعیمی نے انھیں سفیرکتب اہلسنت کا خطاب عطا کیا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب نے جہانیاں جہان گشت کے خطاب سے نوازا۔
صوفی محمد مقصود حسین قادری کے آباؤ اجداد کا تعلق اس مردم خیز سرزمین سے ہے جس نے حفیظ ہوشیار پوری اور طفیل ہوشیار پوری جیسے منفرد لب و لہجہ کے سخنور پیدا کیے ہیں جن کی شہرت اور مقبولیت کو دوام حاصل ہے۔ کتابوں سے والہانہ لگاؤ ان کی زندگی کا جزو لاینفک اور مقصد حیات ہے۔ کتابیں ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اور ان کی صاحبان ذوق تک بلا معاوضہ ترسیل ان کا مشن ہے جسے وہ جنون کی حد تک شان بے نیازی کے ساتھ انجام سے رہے ہیں۔ بقول میرؔ:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
شاید کہ تم کو میرؔ سے نسبت نہیں رہی
درویش صفت مقصود صاحب سے ملاقات کرکے جو سکون قلب حاصل ہوتا ہے ، اسے الفاظ کی صورت میں بیان کرنا ناممکن تو نہ سہی البتہ دشوار ضرور ہے۔ ان کی سادگی اور ان کی خدمات کی نوعیت کو دیکھ کر اکبرؔ الہ آبادی کا مشہور شعر یاد آجاتا ہے۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانہ میں
مادہ پرستی کے اس دور میں جہاں ہر انسان ہوس زر میں مبتلا دکھائی دیتا ہے اور لوگ باپ بڑا نہ بھیا کی روش پر گامزن ہیں، مقصود حسین جیسے شخص کے وجود پر آنکھوں دیکھے کے باوجود یقین نہیں آتا جو اپنے ذاتی خرچ پر اور اپنی زندگی کا قیمتی وقت صرف کرکے علم دوست لوگوں کی گراں قدر خدمت انجام دے رہا ہے۔ ہماری اللہ تعالٰی سے پرخلوص دعا اور نہایت عاجزانہ التجا ہے کہ اویسی صاحب کو صحت و تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے اور عمر خضر عطا فرمائے۔ (آمین)