دھاگے جیسی بیٹری جسے ایک کلومیٹر جتنا لمبا بنایا جاسکتا ہے

ایم آئی ٹی کے سائنسدانوں نے لچکدار ریشے سے 20 میٹر طویل دھاگہ نما بیٹری بنا کر اس سے آبی ڈرون چلایا ہے


ویب ڈیسک December 22, 2021
ایم آئی ٹی کے ماہرین نے 140 میٹر تار پر مشتمل بیٹری تیار کی ہے تصویر میں اسے ایک ڈرون پر لپیٹا گیا ہے اور ڈرون کامیابی سے پانی میں چلنے گا۔ فوٹو: ایم آئی ٹی

کراچی: ٹیکنالوجی کے تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل لچکدار بیٹریوں کا ہی ہوگا۔ اس ضمن میں میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی ) کے ماہرین نے ایک دھاگہ نما بیٹری بنائی ہے جو 140 میٹرطویل ہے اور اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی ہے۔ اس س قبل انہوں نے 20 میٹر طویل دھاگہ بیٹری بنائی ہے۔

اب کمپیوٹر اور برقی آلات ہمارے جسم کا حصہ یوں بن چکے ہیں کہ اب انہیں برقی پہناوے 'ویئرایبل' کہا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی طرح لباس میں بیٹری سی دی جائے یا بیٹری کو لچکدار بنایا جائے۔ اس قسم کی پہلی بیٹری 2014 میں بنائی گئی تھی جسے کسی بھی کپڑے کا حصہ بنایا جاسکتا تھا۔

ایم آئی ٹی کے ماہرین نے دھاگے نما بیڑی لیتھیئم سے ہی بنائی ہے اور وہ چارج بھی کی جاسکتی ہے۔ انہیں مختلف سینسر، ویئرایبلز، کمپیوٹراور دیگر آلات کے لیے کامیابی سے آزمایا جاسکتا ہے۔ اس کی تحقیق جرنل میٹریئل میں شائع ہوئی جس پر پی ایچ ڈی کرنے والے 10 اسکالروں نے کام کیا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ ریشوں سے بنی بیٹری موڑی، دھوئی اور نچوڑی بھی جاسکتی ہے اور اسے بار بار چارج کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل دھاگےنما بیٹری سے ایل ای ڈی اور دیگر اقسام کے سینسر چلائے گئے تھے۔ سائنسدانوں نے لیتھیئم کو دیگر مٹیریئرل کے ساتھ ملاکر اس کا تار بنایا ہے جبکہ بیرونی کوٹنگ کو بطورِ خاص واٹرپروف اور مضبوط بنایا گیا ہے۔ بیٹری کی لمبائی کی کوئی حد نہیں بلکہ اسے ایک کلومیٹر طویل بھی بنایا جاسکتا ہے۔

اس کےالیکٹروڈ (برقیرے) جیل پرمشتمل ہے اورمکمل طور پر فائر پروف بھی ہیں۔ تجرباتی طور پر 140 میٹر طویل دھاگہ بیٹری میں 123 می ایمپیئر آور بجلی جمع کی جاسکتی ہے۔ اس سے اسمارٹ واچ اور فون آسانی سے چارج کیا جاسکتا ہے۔

اس طرح ایک دھاگہ بیٹری سے کئی آلات بھی چلائے جاسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھاگہ بیٹری کو تھری ڈی پرنٹر سے بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔

تجرباتی طورپردھاگہ بیٹری کو ایک زیرِآب ڈرون پر لپیٹا گیا ہے اور اس کی برقی قوت سےڈرون کو کامیابی سے چلایا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں