مولانا چھا گئے تحریک انصاف کے قلعے مسمار
پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات تبدیلی سرکار کے لئے بہت بڑا دھچکا ہے اوروہ اتنی جلدی اس کے صدمے سے باہرنہیں نکل پائے گی۔
FAISALABAD:
خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے مجھ سمیت ہر پاکستانی، خصوصاً میڈیا اور شاید اسٹیبلشمنٹ کو بھی حیران بلکہ اکثریت کو پریشان کر دیا ہے مگر میری حیرانگی اور پریشانی دوسروں سے مختلف ہے لہٰذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنے قارئین سے اس پر بات کروں کہ میں کیوں پریشان اور حیران ہوں۔
اپنے گزشتہ کئی کالموں میں ذکر کرچکا ہوں کہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے جس استقامت اور دلیری کے ساتھ تن تنہا روز اول سے تبدیلی سرکار کے خلاف جو بیانیہ اپنایا ہے اس کو پورے ملک میں جو عوامی پذیرائی مل رہی ہے، میں حیران و پریشان ہوں کہ مولانا کو خود بھی اندازہ نہیں، اگر مولانا کو اندازہ ہوتا تو مولانا اپنی توانائیاں پی ڈی ایم کے نیم مردہ گھوڑے کو کھڑا کرنے کی بجائے جمعیت کی تنظیم سازی پر صرف کرتے۔ یہ کام وہ اب بھی کرسکتے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے ہر ضلع، تحصیلوں، چھوٹے بڑے قصبوں میں جے یو آئی کی تنظیم سازی کی جائے تو ناصرف پنجاب و سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں بڑے اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے بلکہ عام انتخابات کے لئے میدان بھی تیار ملے گا۔
اس وقت کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے حکومتی ایوانوں میں لرزا طاری کردیا ہے، وزیر اعظم عمران خان جو اپنے ہر بھاشن میں قوم کو "گھبرانا نہیں" کی تلقین کرتے تھے آج خود گھبرائے ہوئے ہیں، انھیں تو کوئی یہ کہنے والا بھی نہیں کہ خان صاحب آپ نے "گھبرانا نہیں " بقول شاعر:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
پختون خواہ کے بلدیاتی انتخابات تبدیلی سرکار کے لئے بہت بڑا دھچکا ہے اور وہ اتنی جلدی اس کے صدمے سے باہر نہیں نکل پائے گی لہٰذا اس بات کا خدشہ ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے تبدیلی سرکار راہ فرار اختیار کرے گی۔ بہرحال اگر انتخابات ہوئے اور مولانا نے ہر سیٹ پر کتاب کے نشان پر امیدوار کھڑے کیے تو نتائج پوری دنیا کے لئے حیران کن ہوںگے۔
میں نے پی ڈی ایم کے حوالے سے مولانا سے کچھ عرصہ پہلے گپ شپ کے دوران عرض کیا تھا، کہ میرے باباجان شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی بابا جی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ "ہر سیاسی لیڈر جب تھوڑا سا مجمع دیکھ لے اور اونچی جگہ نہ ہو تو وہ پتھر پر کھڑے ہو کر تقریر شروع کردیتا ہے " اور اس کا مشاہدہ ہم سب اپنے زندگی میں کرتے ہیں۔ میں نے مولانا سے کہا پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کے لیڈروں کا حال بھی وہی ہے آپ کے لاکھوں ورکروں سے خطاب تو ان کا خواب تھا۔
پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی میں یہ اہلیت نہیں کہ اتنے لوگوں کو اکٹھا کرسکے، وہ آتے ہیں اور جمعیت کے کارکنان کو اپنا پیغام سنا کر پنڈی سے کال کے انتظار میں گھر جا بیٹھتے ہیں جس پر مولانا بہت ہنسے مگر بولے کچھ نہیں۔ میں نے مولانا کو کہا کہ یہ دونوں پارٹیاں آپ سے خوفزدہ ہیں یہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ آپ پنجاب کا رخ کریں۔ اس لئے پی ڈی ایم، پی ڈی ایم کا کھیل کھیلا جارہا ہے تا کہ آپ ان سے مایوس ہو کر جمعیت پر پوری توجہ مرکوز نہ کرسکیں۔ دونوں جماعتوں کی قیادت کو مولانا کی سیاسی بصیرت، ان کی دور اندیشی، معاملہ فہمی، قوت ارادی، قوت فیصلہ اور افرادی طاقت کا اندازہ ہے اس لئے وہ مولانا کو سولوفلائیٹ سے روکنے کی خاطر پی ڈی ایم میں الجھا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پنجاب میں تو جمعیت کی کوئی منظم سیاسی شکل نہیں مگر سندھ بہتر ہے اور وہاں کبھی کبھار جمعیت اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ صرف راشد سومرو نے پیپلزپارٹی کی ناک میں دم کررکھا ہے۔ اگر مولانا کو ایک دو راشد سومرو پنجاب میں مل جائیں تو جمعیت پنجاب میں بھی ایک بڑی سیاسی قوت بن کر میدان میں نظر آئے گی۔
پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جمعیت کی فتح یقینی طور پر تاریخی ہے۔ چند اضلاع میں جمعیت کے مقامی ذمے داران کے درمیاں معمولی اختلافات کی وجہ سے کارکنان کی سرد مہری نے بعض سیٹوں پر جمعیت کے امیدواروں کو نقصان پہنچایا۔ میرا یقین ہے کہ اگر خلوص دل سے مقامی ذمے داران اس انتخابات پر پہلے سے توجہ دیتے اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اپناتے اور ساتھ مولانا بھی ان معاملات پر خود نظر رکھتے تو بغیر کسی سے اتحاد کے صورت حال اس سے بہت بہتر ہوتی۔
پختون خواہ میں بلدیاتی انتخابات کے لئے جس وقت کا انتخاب کیا اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن متحدنہیں اور پی ڈی ایم فعال نہیں بلکہ اگر کہا جائے مولانا فضل الرحمن بذات خود اپوزیشن بھی ہے اور پی ڈی ایم بھی تو مناسب ہوگا ۔ یہ صورتحال تبدیلی سرکار کے لئے ساز گار تھی جس سے وہ فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔
ان انتخابات کو مرحلہ وار محض اس لئے کرایا گیا کہ حکومت کوناقص پالیسیوں سے تنگ عوام کے غیض و غضب کا اندازہ تھا اس لئے ایک ساتھ الیکشن کا رسک نہیں لیا، پہلے مرحلے میں جن اضلاع کا انتخاب کیا گیا اس پر بہت سوچ اور فکر کی گئی۔ اس کے لئے سب سے پہلے پچھلے انتخابات کے رزلٹس دیکھے گئے، پھران ضلعوں میں ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز، وزرا اور مشیروں کی تعداد کو مد نظر رکھا گیا، ان ضلعوں میں مالی طور پر مستحکم اور بے دریغ خرچ کرنے والوں کی موجودگی دیکھی گئی۔ بنیادی طور پر اضلاع کا انتخاب ان تین عوامل کی بنا پر کیا گیا، جو ایک سیاسی پارٹی کی بہترین حکمت عملی تھی کیونکہ اس طرح وہ پوری قوت کے ساتھ ان ضلعوں میں حکومتی وسائل کو جھونک کر بہتر نتائج حاصل کر کے دوسرے مرحلے کو آسان بنا سکتے تھے۔
چند اضلاع کے انتخابی نتائج کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں، 2018 میں الیکشن میں تحریک انصاف نے صوابی میں RO اور فارم 47 والے سرکار کی کرامت سے کلین سوئپ کیا تھا مگر آج عبرتناک شکست ہوئی۔ تحصیل رزڑ کی سیٹ عوامی نیشنل پارٹی سابقہ تحصیل ناظم غلام حقانی نے شہرام ترکیٔ کے چچا، سینیٹر لیاقت ترکیٔ، ایم این اے عثمان ترکیٔ اور ایم پی اے محمد علی ترکیٔ کے چچا زاد بھائی بلند اقبال ترکئی کو شکست فاش دے کر اپنے نام کرلی۔ تحصیل ٹوپی کی سیٹ جمعیت علمائے اسلام کے حاجی محمد رحیم خان نے اپنے نام کی، یہاں تحریک انصاف اسپیکر اسد قیصر کے ہوتے ہوئے چوتھے نمبر پر رہی۔
تحصیل لاہور کی سیٹ مسلم لیگ کے عادل خان نے جمعیت کے محمد شہاب کو شکست دے کر اپنے نام کی اور تحصیل صوابی میں مقابلہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے حاجی نورالاسلام اور اے این پی کے درمیان تھا مگر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے فنڈز کا استعمال کیا اور(جسکا اعتراف وہ خود اپنی لیک شدہ آڈیو میں کرچکے ہیں اور الیکشن کمیشن نوٹس بھی لے چکا ہے ) سیٹ اپنے خاندان کے چشم و چراغ اور تحریک انصاف کے عطاء اللہ کے نام کردی۔صوابی کی چار تحصیلوں میں تحصیل رزڑکی میں جے یو آئی کا ووٹ بینک خاصا کمزور تھا مگر میرے بابا جانؒ کے شاگرد رشید مولانا مومن شاہ مظہری نے موٹر سائیکل پر مہم چلا کر ویلیج کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے' انھوں نے20ہزار سے زائد ووٹ لیے اور ثابت کیا کہ مولانا ہر جگہ چھا گئے ہیں۔