گوادر کا معاہدہ محض سراب
گوادر سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں احتجاجی کیفیت گزشتہ 20 برسوں سے ہے
کراچی:
گوادر سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں احتجاجی کیفیت گزشتہ 20 برسوں سے ہے مگر گوادر میں ماہی گیروں کے ایک ماہ کے دھرنا کی اہمیت کو قومی میڈیا نے محسوس کیا۔ اس دھرنا کو منظم کرنے میں مولاناہدایت الرحمن بلوچ نے اہم کردار ادا کیا ۔
مولانا کراچی کے ایک مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں اور جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل ہیں، ان کا خاندان صدیوں سے ماہی گیری سے منسلک ہے۔ ان کی پہلی وڈیو جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اس میں وہ ایک کھلی کچہری میں گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل پیش کررہے تھے۔
اس کچہری میں انھوں نے بلوچستان کے عوام کی زبوں حالی خاص طور پر گوادر کے عوام کی آہ و بکا کے منظر کے لیے جو استعاریہ استعمال کیے وہ کمیونسٹ اور قوم پرست استعمال کرتے ہیں۔ اس کھلی کچہری کے بعد مولانا ہدایت کی سرگرمیوں کے جاری رہنے پر صحافیوں کو حیرت ہوئی۔ گوادر کے ایک صحافی نے کہا کہ ایسی تقریریں کرنے والوں کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوجاتے ہیں۔
پھر انھوں نے یہ مطالبات اٹھائے تھے ،ماہی گیروں کے لیے بحیرۂ عرب میں ماہی گیری5دن تک کرنے کی اجازت، گوادر میں داخلہ کے پوائنٹس پر سیکیورٹی چیک پوسٹ کا خاتمہ، ایران سے تجارت پر عائد پابندیوں کے خاتمہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبات شامل ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمن نے اپنے مطالبات پر عملدرآمد کے لیے الٹی میٹم دیا اور جب حکام بالا نے ان کے الٹی میٹم پر توجہ نہ دی تو گوادر میں دھرنا ہوا۔ اس دھرنا میں بلوچ خواتین کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔ خواتین کی شرکت پورے مہینہ جاری رہی۔ مردوںکی طرح خواتین بھی دھرنا میں پرجوش تھیں۔ پہلے تو حکومت نے گوادر کے دھرنا کو اہمیت نہیں دی۔ وزراء کا ایک وفد آیا۔ بلوچستان کی حکومت کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس کے پاس اختیارات نہیں ہیں ۔
دھرنا والوں کے مطالبات کا براہِ راست تعلق وفاق سے ہے، یوں صوبائی وزراء سے مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ جب قومی میڈیا نے دھرنا کی کوریج کی تو پہلے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دھرنا کے شرکاء کے مطالبات کی حمایت کی، پھر نواز شریف نے ماہی گیروں کے مؤقف کی حمایت کی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مشیر مصطفی نواز کھوکھر نے ایک زوردار بیان جاری کیا۔بلاول بھٹو نے اس بارے میں خاموشی اختیار کیے رکھی، مگر سید خورشید شاہ کی سربراہی میں ایک ٹیم نے گوادر کے ماہی گیروں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
اس دھرنا میں تقریر کرنے والوں کے خلاف مقدمات تو درج ہوئے مگر گرفتاری نیشنل ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان کی ہوئی، یوسف مستی خان کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں، وہ کراچی سے دھرنا کے شرکاء سے یکجہتی کے لیے گوادر گئے تھے۔ مستی خان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا تھا مگر عدالت نے ضمانت منظور کرلی اور ایک دن تھانہ میں گزارنے کے بعد گوادر بدر کردیے گئے۔
جب دھرنا کو 20-25دن ہوئے تو وزیر اعظم نے نوٹس لیا۔ انھوں نے ایک بیان میں فرمایا کہ گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے گوادر دھرنا کے شرکاء کے مطالبات ماننے کا اعلان کیا۔ مولانا ہدایت الرحمن اور وزیر اعلیٰ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، وزیر اعلیٰ نے اپنی فیاضی کا ثبوت دیا۔ غریب خواتین میں نقد رقوم تقسیم کیں جس کی وڈیو مختلف چینلز اور سوشل میڈیا پر نشر ہوئی، یہ معاملہ اب عدالت میں چلا گیا ہے۔
بلوچستان سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی متفقہ رائے ہے کہ گوادر کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک بلوچستان کا مسئلہ حل نہ ہو۔ یوں دھرنا والوں کے بیشتر مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوسکے گا۔ بلوچستان کے سابق گورنر اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سے مسلسل چپقلش کا شکار ہے۔ اکبر بگٹی کے قتل کے بعد پورے بلوچستان میں احتجاج کی فضاء پیدا ہوئی تھی، اس احتجاج سے نوجوان زیادہ متاثر ہوئے۔
بلوچ نوجوانوں کی تنظیم بی ایس او نے لاطینی امریکا کے انقلابی چی گویرا کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کی لہر آئی۔ دیگر صوبوں سے آکر آباد ہونے والے صحافیوں، اساتذہ، سرکاری افسروں ، ڈاکٹروں اور خواتین کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی، اس کے ساتھ ہی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلوچستان میں ہونے والے مظالم پر قومی اسمبلی میں ایک معذرت کی قرارداد بھی منظور کی اور حقوق بلوچستان پیکیج جاری ہوا۔ کچھ لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔
کچھ نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں مگر مجموعی طور پر فضاء خراب رہی۔ پھر 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچ کی وزیر اعلیٰ کے عہدہ کے لیے حمایت کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر مالک کا تعلق تربت کے متوسط طبقہ کے خاندان سے ہے۔ ڈاکٹر مالک نے بلوچستان کی ترقی کے لیے کئی اہم اقدامات کیے۔ ان کی کوششوں سے مسخ شدہ لاشیں ملنا بند ہوئیں۔ شیعہ زائرین کے قافلوں پر حملے رک گئے، ڈاکٹر مالک نے جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے رابطے کیے، وہ لندن، پیرس اور سوئٹزرلینڈ گئے۔ ان کی کوششوں سے یہ امکانات پیدا ہوئے کہ کچھ جلاوطن بلوچ رہنما اپنے وطن واپس آجائیں گے۔
میاں نواز شریف نے چین سے اقتصادی راہ داری کے معاہدہ پر دستخط کیے اور اس اقتصادی راہ داری کا مرکز گوادر بنا۔ چین کی مدد سے گوادر کو جدید سڑک کے ذریعہ چین سے منسلک کیا گیا۔ گوادر کی بندرگاہ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے کئی منصوبے شروع ہوئے، گوادر میں بجلی گھر تعمیر ہوئے۔ ان بجلی گھروں کو قومی نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا گیا مگر سی پیک کے منصوبہ پر بلوچستان کے عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ گوادر سمیت مکران ڈویژن کا انحصار ایران سے آنے والی بجلی پر رہا، گوادر کے پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح کم ہوئی۔
پھر ڈاکٹر مالک کی حکومت ختم ہوئی اور بلوچستان میں پہلے جیسی صورتحال واپس آگئی۔ گوادر کے ماہی گیروں کے بیشتر مطالبات کا تعلق وفاق سے ہے ماہی گیر سمندر میں جانے کے لیے 5دن کی اجازت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وفاقی حکومت غیر ملکی ٹرالر کمپنیوں سے معاملات طے کرچکی ہے۔
یہ ٹرالر جدید جال کے ذریعہ سمندر کی تہہ تک مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ ایران سے آنے والے سامان کو اسمگلنگ کی تعریف میں شامل کیا جاتا ہے مگر مکران ڈویژن کے لوگوں کی زندگی کا انحصار ایران سے آنے والے سامان کے کاروبار پر ہے۔ بلوچستان کے بارے میں مسلسل لکھنے والے صحافی عزیز سنگھور کہتے ہیں کہ ایران سے تیل مکران ڈویژن میں نہ آئے تو بلوچستان کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ وفاقی حکومت اگر چیک پوسٹ ختم کرا دے تو ان کے دور کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان نے تحریک طالبان پاکستان کو معافی دینے اور بات چیت کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ میں یہ کہا تھا عام معافی کا دائرہ بلوچستان تک وسیع کیا جائے گا، یہ وقت ہے کہ بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے۔
ناراض عناصر سے سنجیدہ مذکرات کیے جائیں، سی پیک میں بلوچ نوجوانوں کی شرکت کے لیے رکاوٹیں دور کی جائیں۔ مستقل حل کے لیے بلوچستان کو آئین میں خصوصی حیثیت دینے کی تجویز کا جائزہ لیا جائے۔ جب تک بلوچستان کے حقیقی مسائل پر توجہ نہیں ہوگی تو کوئی معاہدہ موثر نہیں ہوگا۔ بلوچستان کے عوام کی مایوسیوں کو دور کرنے کے حقیقی اقدامات نہیں ہونگے، یہ خطہ چپقلش کا شکار رہے گا جس کا نقصان صرف بلوچستان کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ہوا اور مزید ہوگا۔