الوداع 2021
دوہزار اکیس کا یہ سال بوری بستر باندھے بیٹھا ہے
لاہور:
عجیب سی سطریں ہیں میر کی:
یاں کے سپید و سیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا
دوہزار اکیس کا یہ سال بوری بستر باندھے بیٹھا ہے ۔ ساری صبحیں ، شامیں وہ چار موسم اس کے پاس پڑی تھیں، وہ ایک دفتر جو بھر گیا اور ایک نیا دفتر ہے جو دو ہزار بائیس کے عنوان سے تیار ہے، یہی شام و صبحیں لے کر ، چار موسم لے کر۔ آج سے اکیس سال پہلے بھی اکتیس دسمبر آئی تھی ، جب ایک صدی بھی پار ہوئی تھی تو ایک میلینیم بھی، میں نے وہ سورج جامشورو کے پل پے الوداع کیا تھا اور وہ رات شاہ لطیف کے فقیروں کے پاس بتائی تھی۔
وادی سندھ کے وجود سے ہے میرا وجود، ہڑپا، موہن جو دڑو، ٹیکسیلا، قدیم شاہراہ ریشم ، ہندوکش پہاڑوںکا سلسلہ ، برف اوڑھے یہ دیوقامت سلسلہ۔ اتنی قدیم ہے یہ تہذیب کہ دنیا میں اتنی قدیم تو کوئی تہذیب نہیں ہے۔ یہ پورا پاکستان اس تہذیب کے چپے چپے ، کونے کونے کا امین ہے۔ میرے لیے وادی مہران ہے، لداخ سے لے کر لیاری تک ۔ مچھیروں کی بستیوں سے لے کر ہنزہ تک۔ وہاں کی صبحیں و شامیں میں نے دیکھیں ہیںم پہاڑوں کی اوٹ سے اندھیروں کو چیرتی منور ہوتی ہیں اور پھر انھیں میں گم ہوجاتی ہیں۔ جب یہ میری دہلیز پے دریا بن گزرتی اور سمندر میں اترتی ہیں۔ عجیب رنگ ہیں ان صبحوں اور شاموں کے، میں ہر شام سمندر کنارے ٹہلتے ان کو دیکھتا ہوں۔
یہ وقت ہے، ایک پردہ ہے ، کئی کہکشاں ہیں، سب رواں ہیں۔ یہ سب گھومتی رہتی ہیں، ایک دائرہ ہے۔ اس دائرے میں کئی دائرے ہیں ۔ ایک نکتہ ہے، اس نکتے میں کئی نکتے ہیں، کئی منجدھارے ہیں، کئی منزلیں ہیں۔ ہر منزل خود ایک زینہ ہے۔
زندگی میں پڑی ہے زندگی، ایک بیج ہے جو زمین پے پھیل گیا ہے کہ آدمی ہو گیا ہے۔ اتنا آدمی ہوگیا ہے کہ باقی سب کچھ کم ہوگیا ہے۔ یہ کیپیٹلزم والی تہذیب، ایسے ایندھن کے استعمال سے بنی ہے جس نے پوری دھرتی پے رہتے سب نباتات و جیوت کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اب توانائی کے ذریعے تبدیل ہورہے ہیں۔ شمسی توانائی سے بجلی بن رہی ہے اور اس سے چلیں گی گاڑیاں، جہاز وغیرہ۔ کوئلہ و پٹرول آیندہ بیس برسوں میںختم ہو جائے گا۔
انسان نے جیسے سب جانوروں کو غلام بنا لیا تھا، اب وہ خود محکوم بننے جارہے ہیں ۔ algorithm کے artificial intelligence کے۔ اب یہ گوگل ، فیس بوک، ٹویٹر ، روبوٹس نہ جانے کیا کیا اتھارٹی بننے جارہے ہیں ۔ خود آن لائن ہونا ایک عام سی بات ہے۔
اب کے گھلنا ملنا ، سب کے سب ایسے رویے ثانوی ہوتے جارہے ہیں۔ آن لائن ہوں گی ملاقاتیں ، شادی بیاہ ، غمی خوشی کے تہوار ۔ ریاستوں کی سرحدیں ماند پڑ جائیں گی۔ ہاں مگر ایک جنگ ابھی ہونے کو باقی ہے ، مشرق و مغرب کی، امریکا اور چین کی۔ ایک اور سرد جنگ جو دو ہزار بائیس کی دہلیز پے اور نکھر کے نکلے گی۔ ایک طرف جمہوریت میں رہتی دنیا ہے اور دوسری طرف آمریت میں رہتی دنیا ہے۔
جو ہوگا وہ دیکھا جائے گا ، دنیا بہت تیزی سے بدل گئی ان شاموں و صبحوں کے چرخے سے ، ہمارا دخل جو تھا بس اتنا تھا، وقت کے پھیرے تھے ۔ اشتراکی تھے وہ پھر سے لوٹیں گے ، دنیا سے کیپیٹلزم کی یہ گھناؤنی شکل مدھم ہوگی۔ جمہوریتوں پے بائیں بازو والے پھر سے بازی لے لیں گے۔
روشن خیالی پھر سے منور ہوگی ،ہاں مگر یہ بازار کہیں نہیں جاتی،یہ طلب و رسد کا پیمانہ کہیں نہیں جاتا ، اس بازار کے تلخ فیصلوں کو ضرور قانون کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، اس کو آزاد نہیں چھوڑا جاسکتاکہ خود ایسا ہونا ممکن بھی نہیں پھر یہ خود ان بڑی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ایک کھلونا بن جاتی ہے ۔ پٹرول گاڑیاں بنانے والے ادارے الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے چکر میں پڑ رہے ہیں۔ سب کے ہاتھوں میں ہے اسمارٹ فون، سب کی آنکھیں اس کی اسکرین میں پڑی ، سب کی انگلیاں ہیں ، اس کی اسکرین پے ٹھہری۔
اب دو ہزار بائیس پے ہوگا ایک واضع منظر کہ آیندہ بیس سالوں میں یا تیس سالوں میں اتنا کچھ تبدیل ہونے کو جارہا ہے جو ، پچھلے سو سالوں میں بھی نہ ہوا۔ ان تیس سالوں میں انسان اور محکوم ہوجائے گا۔ اپنی بنائی ہوئی مشین کا ، وہ مشین جس کے کوئی بھی جذبات نہیں ہیں۔ وہ مشین جس کی کسی سے دشمنی ہے نہ دوستی۔ algorithm پے چلنے والی ان مشینوں کا یہ پہلا مرحلہ ہوگا جب یہ دنیا کو انسان کی حاکمیت سے آزاد کرائیں گی اور آہستہ آہستہ ارتقا کے زینے چڑھتے چڑھتے ، یہ اور بھی مہذب بن جائیں گی۔ یہ مشینیںکریں گی فیصلے کے پیداوار کے ذرایع کہاں بہتر استعمال ہوں گے۔ یہ رنگ و نسل میں بٹی دنیا ، یہ تہذیبوں کے ٹکراؤ میں پڑی دنیا۔ یہ مذہبی نفرتوں میں پڑی دنیا ،کیا مستقبل کی دنیا میں شام و صبحیں ایسی ہی ہوں گی؟ ہرگز نہیں!!!
کہاں ہوگی پھر وادی سندھ ، وادی مہران، میرا پاکستان؟ ان آنے والے تیس سالوں میں !! کیا یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا ۔ اب کے بار جو پچاس ہزار ارب کا جو قرضہ ہے وہ دو سو ہزار ارب ہوجائے گا ۔ روز دو روپے بجلی مہنگی ہوگی ، لوگوں کو صاف پانی دینے ، اسکول دینے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہونگے۔ ہمارے پاس قرضے اتارنے کے لیے پیسے نہیں ہونگے ۔ ہم قرضہ اتارنے کے لیے قرضہ لیں گے۔ کیا یہی ہونگے ہمارے حکمران، یہی وعدے ، دھوکے ، جھوٹ کا بازار گرم ہوگا؟
دو ہزار بائیس جب زینوں پے آیا ہے تو پاکستان میں ہائیبرڈ جمہوریت اپنا بستر گول کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اسے بھاری قرضوں نے شکست دے دی ہے، بدلتی دنیا نے شکست دی ہے، بہت تیزی سے یہ ہارے ہیں۔ وہ مانیں نہ مانیں مگر نوشتہ دیوار ہے، یہ آفاقی حقیقت۔
الوداع دو ہزار اکیس الوداع۔
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
(میر)